Muslimano ki Qadeem Tarz-e-Taleem
Muslimano ki Qadeem Tarz-e-Taleem
Muslimano ki
Qadeem Tarz-e-Taleem
مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم
تعارفِ مصنف
شبلی نعمانی عظیم شاعر‘ مذہبی اسکالر‘ محقق‘ تنقید نگار‘ سوانح نگاراور اعلی پائے کے انشاء پرداز ہیں۔ وہ اردو کے ارکانِ خمسہ میں سے سرسید کی قومی بھلائی کی تحریک کے پرجوش حای اور عمدہ خطیب و بےباک صحافی تھے۔ مہدی افادی فرماتے ہیں
میرا بس چلے تو میں شبلی کو ہندوستان سے باہر یورپ کے کسی بیت الحکماءمیں بھیج دوں جہاں ان کو غیر معمولی قابلیت کی داد بڑے بڑے علمائے مستشرقین سے ملے گی جو بلحاظ ہم فنی ان کے یارانِ طریقت ہیں۔
اقتباس ۱
۵۴۱ھ تک یعنی جب تک تصنیف و تالیف نہیں شروع ہوئی تھی جو تعلم و تعلیم تھی وہ عرب کے سادہ اور نیچرل طرز زندگی کے لئے موزوں تھی۔ علوم وہ تھے جن کو حافظہ سے زیادہ تر تعلق تھا۔ بحث طلب مسائل معمولی فہم کی دسترس سے باہر نہ تھے اور طرزِ تعلیم تو بالکل وہی تھا(سند و روایت) جو قدیم زمانے سے ان میں رائج تھا۔
تشریح
شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ ۵۴۱ھ تک علم کو باقاعدہ کتابت و اشاعت اور ضابطہ تحریر میں لاکر محفوظ کرکے لوگوں تک منتقل کرنے کا رواج نہ ہو پایا تھا اس لئے علم کو ذہن در ذہن ہی منتقل کیا جاتا تھا۔ عرب خصوصاً مسلمانوں میں تعلیم و تدریس کا جو قاعدہ رائج تھا وہ فطری تھا۔ ماحول کی مناسبت سے سیدھا سادھا طریقہ تدریس قائم تھا جس میں حافظے کا مکمل عمل دخل تھا۔ یادداشت کی قوت کو بروئے کار لاکر علم ایک ذہن سے دوسرے ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ ہر بات پر گفتگو‘ بحث و مباحثہ‘ ہر پہلو پر غوروفکر اور روشن و تاریک پہلوﺅں کو اجاگر کرنا ہر خاص و عام کی عادت تھی۔
غرض یہ کہ ۵۴۱ھ کے آخر تک طرزِ تعلیم اسی قدیم طرز و انداز کا حامل تھا جو گزشتہ میں رائج تھا۔ جس میں حکمائ‘ مفکرین اور اہلِ دانش کے اقوال و بیانات کو موضوع بنایا جاتا جو دلائل کے ساتھ قابلِ قبول رہے ہوں
اقتباس ۲
لیکن سو برس کی مدت میں تمدن بہت کچھ ترقی کر گیا اور اسی نسبت سے ان میں تعلیم میں زیادہ وسیع اور مرتب و باقاعدہ ہو چلی۔ اس دور میں جن علوم کو رواجِ عام حاصل ہوا وہ نحو‘ معانی‘ لغت‘اصول حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ اسماءالرجال‘ طبقات اور ان کے متعلقات تھے۔ عقلی علوم کا سرمایہ بہت کچھ جمع ہوگیا تھا مگر رواجِ عام نہ حاصل کرسکا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت نے اس کی شاعت پر چنداں زور نہ دیا اور عام ملک کو کچھ ناواقفیت‘ کچھ مذہبی غلط فہمی کی وجہ سے فلسفہ منطق سے ہمدردی نہ تھی۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل شبلی نے لکھا ہے کہ ۵۴۱ھ تک تمام علوم کی تعلیم و تدریس میں حافظے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور علم کو ذہن در ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ نصاب میں حکماءاور مفکرین کے اقوال و بیانات شامل تھے۔
تشریح
شبلی کہتے ہیں کہ ۵۴۱ھ کے بعد سو سال کے عرصے میں مفکرین کے اقوال و بیانات کے علاوہ جن علوم کو ترقی ہوئی ان میں قواعد کا علم ضروری سمجھا جانے لگا۔ علمِ معانی یعنی الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا علیحدہ مضمون قرار پایا۔ احکامِ شریعت کے علم نے علمِ فقہ کے نام سے جدا حیثیت حاصل کرلی ۔ اقوالِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ ایک جامع شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔ تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا مختلف ذرائع سے پیش کی جانے والی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کو پرکھنے اور روایوں کے حافظے و نسیان اور سیرت و کردار کو جانچنے کا عمل اور ان سے احادیث کا معیار قائم کرنے کا تحقیقی علم بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔ ان علوم کے دوش بدوش سماجی درجہ بندی و معیشت اور ہم رشتہ امور کو شعبہ علم کا درجہ دے دیا گیا۔
مسلمانوں کے پاس اہلِ گزشتہ کے سرمایہ کی حیثیت سے عقلی و نظری علوم کا بڑا خزینہ تھا لیکن مذکورہ بالا شعبہ ہائے علوم کے مقابلے میں یہ زیادہ مقبولیت و اہمیت کی حامل نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری سطح پر علم کی اشاعت کی کوئی خاص سرپرستی نہ تھی اور ہی عام لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول تھی۔ اس کے علاوہ کچھ علوم کو مذہبی لحاظ سے ناقابلِ توجہ سمجھا گیا مثلاً فلسفہ منطق (عقلی علوم) جسکی وجہ سے ان کی ترقی نہ ہوسکی
اقتباس ۳
دیکھو دریائے سندھ کے کنارے تک اسلام حکومت کررہا ہے۔ حجازی فتوحات کا سیلاب اب رک چلاہے۔ مفتوحہ ممالک میں امن و انتظام کا عمل ہوتا جاتا ہے۔ سینکڑوں قبیلے ریگستانِ عرب سے نکل کر دور دراز ملکوں میں آباد ہوتے جاتے ہیں۔ بہت سی نئی قومیں دلی ذوق سے اسلام کے حلقے میں داخل ہورہی ہیں۔ لیکن اب تک اس وسیع دنیا میں سلطنت کی طرف سے نہ کوئی سررشتہ تعلیم ہے نہ یونیورسٹیاں‘ نہ مدرسے ہیں۔ عرب کی نسلیں حکمران ہیں مگر حکومت ایسی بے تعلق اور اوپری ہے کہ ملک کے عام اخلاق‘ معاشرت‘ تمدن پر فاتح قوم کی تہذیب کا اثر چنداں نہیں پڑ سکتا۔ تمام علوم پر عربی زبان کی مہر لگی ہے۔ ان سب باتوں پر دیکھو کہ علوم و فنون کس تیزی اور وسعت سے بڑھتے جاتے ہیں۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل شبلی نے لکھا ہے کہ ۵۴۱ھ تک تمام علوم کی تعلیم و تدریس میں حافظے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور علم کو ذہن در ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ نصاب میں حکماءاور مفکرین کے اقوال و بیانات شامل تھے۔لیکن ا س کے علاوہ جن علوم کو ترقی ہوئی ان میں قواعد کا علم ضروری سمجھا جانے لگا۔ علمِ معانی یعنی الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا علیحدہ مضمون قرار پایا۔ احکامِ شریعت کے علم نے علمِ فقہ کے نام سے جدا حیثیت حاصل کرلی ۔ اقوالِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ ایک جامع شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔ تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا مختلف ذرائع سے پیش کی جانے والی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کو پرکھنے اور روایوں کے حافظے و نسیان اور سیرت و کردار کو جانچنے کا عمل اور ان سے احادیث کا معیار قائم کرنے کا تحقیقی علم بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔البتہ فلسفہ منطق پر بے توجہی برتی گئی۔
تشریح
پیشِ نظر سطور میں انھوں نے ایسا بیانیہ انداز اختیار کیا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس دور میں موجود تھے اور سب کچھ انکے سامنے ہورہا تھا۔
وہ فتوحاتِ اسلامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجاہدینِ اسلام کی یلغار مکہ و مدینہ سے شروع ہوئی تھی وہ بڑھتے بڑھتے دریائے سندھ کے کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ دنیا کے طویل خطے پر پرچمِ ہلالی لہرا رہا تھا اب مزید فتوحات کا سلسلہ رک چکا تھااور مفتوحہ علاقوں میں مسلمان قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف تھے۔ تاکہ مفتوحہ علاقوں انکی حکمرانی کی جڑیں مضبوط ہوسکیں اور کوئی انتشار و افتراق اور فساد و بغاوت سر نہ اٹھا سکے اور عوام چین کی زندگی بسر کرسکیں۔
اس سلسلے میں جگہ جگہ مجاہدین کے ساتھ آنے والے قبیلے رہائش اختیار کر رہے تھے۔ اسلام کی برکتیں عام ہورہی تھیں‘ لوگ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی سیرت و کردار سے متاثر ہو کر جوق در جوق دائرہِ اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ اسلامی مملکتوں کے قیام اور دنیا کے وسیع و عریض خطے میں مسلمانوں کی حکمرانی اور سیاسی بالادستی قائم ہونے کے باوجود حکمرانوں نے تعلیم کی ترقی کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی۔ ان کی حکومتوں میں دورِ حاضر کی طرح کوئی محکمہ تعلیم قائم نہ تھا‘ نہ ہی باقاعدہ درسگاہوں کا جال بچھایا گیا تھا۔ جس سے علم حاصل کرنے والے اپنے علم کی پیاس بجھا سکتے۔
غرض مسلمان حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے اسلام کے نظامِ اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور انکی تہذیب و تمدن کے اثرات مقامی رعایا پر مرتب نہ ہو سکے۔ اب تمام ریاستوں میں جہاں مسلمان حکمران تھے۔تدریسی علوم کی زبان عربی تھی حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور مقامی زبان میں تدریس نہ ہونے کے باوجود علوم و فنون تیز رفتاری سے ترقی کے مراحل طے کر رہے تھے اور لوگ علم کے حصول میں بے پناہ دلچسپی کا مظاہرہ ررہے تھے جسکی وجہ سے ہر جگہ علم کا دور دورہ تھا
اقتباس ۴
ایک ایک شہر بلکہ ایک ایک گاﺅں علمی صداﺅں سے گونج اٹھا ہے۔ عام تعلیم کے لئے ہزاروں مکتب قائم ہیں جن میں سلطنت کا کچھ حصہ نہیں ہے اور جو آجکل کے تحصیلی مدارس سے زیادہ مفید اور فیاض ہیں‘ اوسط اور اعلی تعلیم کے لئے مسجدوں کے صحن‘ خانقاہوں کے حچرے‘ علماءکے ذاتی مکانات ہیں۔ لیکن ان سادہ اور بے تکلف عمارتوں میں جس وسعت اور فیاضی کے ساتھ علم کی تربیت ہو رہی تھی ‘ بڑے بڑے عالیشان قصر و ایوان میں بھی جو پانچویں صدی کے آغاز میں اس غرض سے تعمیر ہوئے‘ اس سے کچھ زیادہ نہ ہو سکی۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل شبلی نے لکھا ہے کہ ۵۴۱ھ تک تمام علوم کی تعلیم و تدریس میں حافظے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور علم کو ذہن در ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ نصاب میں حکماء اور مفکرین کے اقوال و بیانات شامل تھے۔لیکن ا س کے علاوہ جن علوم کو ترقی ہوئی ان میں قواعد کا علم ضروری سمجھا جانے لگا۔ علمِ معانی یعنی الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا علیحدہ مضمون قرار پایا۔ احکامِ شریعت کے علم نے علمِ فقہ کے نام سے جدا حیثیت حاصل کرلی ۔ اقوالِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ ایک جامع شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔ تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا مختلف ذرائع سے پیش کی جانے والی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کو پرکھنے اور روایوں کے حافظے و نسیان اور سیرت و کردار کو جانچنے کا عمل اور ان سے احادیث کا معیار قائم کرنے کا تحقیقی گرو علم بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔البتہ فلسفہ منطق پر بے توجہی برتی گئی۔
پیشِ نظر سطور میں شبلی کہتے ہیں کہ سرکاری طور پر سرپرستی نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی انفرادی کوششوں اور توجہ سے ہر اس جگہ علمی ترقی ہوئی جہاں مسلمان حکومتیں تھیں۔ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں‘ گلی گلی ‘ کوچہ کوچہ علم کا چرچا تھا۔ عوام و خاص علم کے فروغ اور حصل میں دلچسپی لیتے تھے۔ ہزاروں چھوٹے بڑے مدرسے اور درسگاہیں قائم تھیں۔ ان درسگاہوں کو حکومتی سطح پر امدادو اعانت اور سرپرستی حاصل نہ ہونے کے باوجود ان میں علم کو فروغ حاصل ہوا اور تحصیلِ علم کا موثر نظام قائم ہوا بےشمار لوگوں نے ان سے علمی پیاس بجھائی۔ ان سے علم حاصل کرنے والے‘ دورِ حاضر کے اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کے مقابلے میں زیادہ اہل اوربہتر عالم ٹھہرے جنھوںنے دنیا کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ بڑی بڑی عالی شان عمارتوں کے بجائے اس دور میں علمی مساجد کے صحن ‘ اولیاءکی خانقاہیں اور علماءکے سیدھے سادھے آرائش و زیبائش سے بے نیاز ذاتی مکانات تھے۔ لیکن ان سادہ اور بے تکلف مکینوں سے علم کے وسیع و عریض دریا جاری ہوئے جن سے متعدد لوگوں کو علمی سیرابی ہوئی۔ سچ ہے کہ پانچویں صدی کے آغاز میں اس مقصد کے حصل کیلئے تعمیر ہونے والی عالیشان اور بلند و بالا عمارات‘ محلات اور درسگاہوں نے کوئی قابلِ ذکر علمی کارنامہ انجام نہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروغِ علم کے لئے عمارت کا بلند و بالا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ طریقہ تدریس کے مﺅ ثر نظام کا بڑا دخل ہے
اقتباس ۵
اگرچہ متواتر انقلابات‘ تخت گاہوں کی بربادی‘ اسپین کی تباہی‘ تاتار کی عام غارت گری کے بعد ہمارے پاس جو کچھ رہ گیا ہے وہ ہزار میں ایک بھی نہیں ہے اور اس وجہ سے ہزاروں لاکھوں ناموروں کی صورتیں زمانے کی تاریخی نگاہ سے چھپ گئی ہیں۔ تاہم ہر عہد میں ہم سینکڑوں ماہرین و مجتہدینِ فن کا نشان دے سکتے ہیں۔
ربطِ ما قبل
علماءو فضلاءکے قائم کردہ ہر آسائش سے بے نیاز مکانات و ادارے علم کا مرکز تھے۔ جہاں صاحبانِ علم طلبہ کو سخاوت سے زیورِ علم سے آراستہ کررہے تھے۔ اورحصولِ علم کی دھن میں مست لوگ اپنی علمی پیاس بجھارہے تھے۔ حقیقت میں علمی فیض پہنچاتے میں ان درسگاہوں نے جو کام کیا اس کا مقابلہ بعد میں تعمیر ہونے والے عالیشان ایوان نہ کرسکے۔ حالانکہ ان ادارون کو کوئی حکومتی سرپرستی حاصل نہ تھی۔
تشریح
شبلی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا دوسرا دور علمی ترقی و اشاعت کا زریں دور تھا۔ حالانکہ اس دور کا کوئی ریکارڈ نہیں کیونکہ سب کچھ تاتار کے ہاتھوں یا انقلابِ زمانہ کی کرشمہ سازیوں کی نظر ہو گیا۔ جس کی وجہ سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی بتایا جاسکتا ہے کتنے فیصد لوگ علم سے بہرہ ور ہوئے اور کتنے فیصد لوگوں نے علمی کارنامے انجام دیے البتہ بے شمار تصانیف اور تواریخ کے حوالوں سے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے مسلمان حکومتیں گاہے بہ گاہے مختلف حملہ آوروں کی زد میں رہے ہیں کبھی تاتاریوں کی تباہ کاریوں سے دوچار ہوئیں کبھی انھیں اپنوں کی ریشہ دوانیوں نے نقصان پہنچایا۔ غرض یہ کہ بیرونی جارحوں نے ان سلطنتوں اور علمی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور تمام ذخائرِ علمی کو تباہ و برباد اور ملیامیٹ کردیا۔ جس کی وجہ سے بے شمار علمی شخصیات کے نام اور کارنامے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوئے جو کچھ ہم تک پہنچ سکا وہ ہزارواں حصہ بھی نہ تھا۔ اس طرح ہم اپنے تہذیبی ورثہ سے بڑی حد تک محروم ہوگئے
مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم
تعارفِ مصنف
شبلی نعمانی عظیم شاعر‘ مذہبی اسکالر‘ محقق‘ تنقید نگار‘ سوانح نگاراور اعلی پائے کے انشاء پرداز ہیں۔ وہ اردو کے ارکانِ خمسہ میں سے سرسید کی قومی بھلائی کی تحریک کے پرجوش حای اور عمدہ خطیب و بےباک صحافی تھے۔ مہدی افادی فرماتے ہیں
میرا بس چلے تو میں شبلی کو ہندوستان سے باہر یورپ کے کسی بیت الحکماءمیں بھیج دوں جہاں ان کو غیر معمولی قابلیت کی داد بڑے بڑے علمائے مستشرقین سے ملے گی جو بلحاظ ہم فنی ان کے یارانِ طریقت ہیں۔
اقتباس ۱
۵۴۱ھ تک یعنی جب تک تصنیف و تالیف نہیں شروع ہوئی تھی جو تعلم و تعلیم تھی وہ عرب کے سادہ اور نیچرل طرز زندگی کے لئے موزوں تھی۔ علوم وہ تھے جن کو حافظہ سے زیادہ تر تعلق تھا۔ بحث طلب مسائل معمولی فہم کی دسترس سے باہر نہ تھے اور طرزِ تعلیم تو بالکل وہی تھا(سند و روایت) جو قدیم زمانے سے ان میں رائج تھا۔
تشریح
شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ ۵۴۱ھ تک علم کو باقاعدہ کتابت و اشاعت اور ضابطہ تحریر میں لاکر محفوظ کرکے لوگوں تک منتقل کرنے کا رواج نہ ہو پایا تھا اس لئے علم کو ذہن در ذہن ہی منتقل کیا جاتا تھا۔ عرب خصوصاً مسلمانوں میں تعلیم و تدریس کا جو قاعدہ رائج تھا وہ فطری تھا۔ ماحول کی مناسبت سے سیدھا سادھا طریقہ تدریس قائم تھا جس میں حافظے کا مکمل عمل دخل تھا۔ یادداشت کی قوت کو بروئے کار لاکر علم ایک ذہن سے دوسرے ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ ہر بات پر گفتگو‘ بحث و مباحثہ‘ ہر پہلو پر غوروفکر اور روشن و تاریک پہلوﺅں کو اجاگر کرنا ہر خاص و عام کی عادت تھی۔
غرض یہ کہ ۵۴۱ھ کے آخر تک طرزِ تعلیم اسی قدیم طرز و انداز کا حامل تھا جو گزشتہ میں رائج تھا۔ جس میں حکمائ‘ مفکرین اور اہلِ دانش کے اقوال و بیانات کو موضوع بنایا جاتا جو دلائل کے ساتھ قابلِ قبول رہے ہوں
اقتباس ۲
لیکن سو برس کی مدت میں تمدن بہت کچھ ترقی کر گیا اور اسی نسبت سے ان میں تعلیم میں زیادہ وسیع اور مرتب و باقاعدہ ہو چلی۔ اس دور میں جن علوم کو رواجِ عام حاصل ہوا وہ نحو‘ معانی‘ لغت‘اصول حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ اسماءالرجال‘ طبقات اور ان کے متعلقات تھے۔ عقلی علوم کا سرمایہ بہت کچھ جمع ہوگیا تھا مگر رواجِ عام نہ حاصل کرسکا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت نے اس کی شاعت پر چنداں زور نہ دیا اور عام ملک کو کچھ ناواقفیت‘ کچھ مذہبی غلط فہمی کی وجہ سے فلسفہ منطق سے ہمدردی نہ تھی۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل شبلی نے لکھا ہے کہ ۵۴۱ھ تک تمام علوم کی تعلیم و تدریس میں حافظے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور علم کو ذہن در ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ نصاب میں حکماءاور مفکرین کے اقوال و بیانات شامل تھے۔
تشریح
شبلی کہتے ہیں کہ ۵۴۱ھ کے بعد سو سال کے عرصے میں مفکرین کے اقوال و بیانات کے علاوہ جن علوم کو ترقی ہوئی ان میں قواعد کا علم ضروری سمجھا جانے لگا۔ علمِ معانی یعنی الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا علیحدہ مضمون قرار پایا۔ احکامِ شریعت کے علم نے علمِ فقہ کے نام سے جدا حیثیت حاصل کرلی ۔ اقوالِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ ایک جامع شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔ تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا مختلف ذرائع سے پیش کی جانے والی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کو پرکھنے اور روایوں کے حافظے و نسیان اور سیرت و کردار کو جانچنے کا عمل اور ان سے احادیث کا معیار قائم کرنے کا تحقیقی علم بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔ ان علوم کے دوش بدوش سماجی درجہ بندی و معیشت اور ہم رشتہ امور کو شعبہ علم کا درجہ دے دیا گیا۔
مسلمانوں کے پاس اہلِ گزشتہ کے سرمایہ کی حیثیت سے عقلی و نظری علوم کا بڑا خزینہ تھا لیکن مذکورہ بالا شعبہ ہائے علوم کے مقابلے میں یہ زیادہ مقبولیت و اہمیت کی حامل نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری سطح پر علم کی اشاعت کی کوئی خاص سرپرستی نہ تھی اور ہی عام لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول تھی۔ اس کے علاوہ کچھ علوم کو مذہبی لحاظ سے ناقابلِ توجہ سمجھا گیا مثلاً فلسفہ منطق (عقلی علوم) جسکی وجہ سے ان کی ترقی نہ ہوسکی
اقتباس ۳
دیکھو دریائے سندھ کے کنارے تک اسلام حکومت کررہا ہے۔ حجازی فتوحات کا سیلاب اب رک چلاہے۔ مفتوحہ ممالک میں امن و انتظام کا عمل ہوتا جاتا ہے۔ سینکڑوں قبیلے ریگستانِ عرب سے نکل کر دور دراز ملکوں میں آباد ہوتے جاتے ہیں۔ بہت سی نئی قومیں دلی ذوق سے اسلام کے حلقے میں داخل ہورہی ہیں۔ لیکن اب تک اس وسیع دنیا میں سلطنت کی طرف سے نہ کوئی سررشتہ تعلیم ہے نہ یونیورسٹیاں‘ نہ مدرسے ہیں۔ عرب کی نسلیں حکمران ہیں مگر حکومت ایسی بے تعلق اور اوپری ہے کہ ملک کے عام اخلاق‘ معاشرت‘ تمدن پر فاتح قوم کی تہذیب کا اثر چنداں نہیں پڑ سکتا۔ تمام علوم پر عربی زبان کی مہر لگی ہے۔ ان سب باتوں پر دیکھو کہ علوم و فنون کس تیزی اور وسعت سے بڑھتے جاتے ہیں۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل شبلی نے لکھا ہے کہ ۵۴۱ھ تک تمام علوم کی تعلیم و تدریس میں حافظے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور علم کو ذہن در ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ نصاب میں حکماءاور مفکرین کے اقوال و بیانات شامل تھے۔لیکن ا س کے علاوہ جن علوم کو ترقی ہوئی ان میں قواعد کا علم ضروری سمجھا جانے لگا۔ علمِ معانی یعنی الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا علیحدہ مضمون قرار پایا۔ احکامِ شریعت کے علم نے علمِ فقہ کے نام سے جدا حیثیت حاصل کرلی ۔ اقوالِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ ایک جامع شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔ تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا مختلف ذرائع سے پیش کی جانے والی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کو پرکھنے اور روایوں کے حافظے و نسیان اور سیرت و کردار کو جانچنے کا عمل اور ان سے احادیث کا معیار قائم کرنے کا تحقیقی علم بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔البتہ فلسفہ منطق پر بے توجہی برتی گئی۔
تشریح
پیشِ نظر سطور میں انھوں نے ایسا بیانیہ انداز اختیار کیا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس دور میں موجود تھے اور سب کچھ انکے سامنے ہورہا تھا۔
وہ فتوحاتِ اسلامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجاہدینِ اسلام کی یلغار مکہ و مدینہ سے شروع ہوئی تھی وہ بڑھتے بڑھتے دریائے سندھ کے کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ دنیا کے طویل خطے پر پرچمِ ہلالی لہرا رہا تھا اب مزید فتوحات کا سلسلہ رک چکا تھااور مفتوحہ علاقوں میں مسلمان قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف تھے۔ تاکہ مفتوحہ علاقوں انکی حکمرانی کی جڑیں مضبوط ہوسکیں اور کوئی انتشار و افتراق اور فساد و بغاوت سر نہ اٹھا سکے اور عوام چین کی زندگی بسر کرسکیں۔
اس سلسلے میں جگہ جگہ مجاہدین کے ساتھ آنے والے قبیلے رہائش اختیار کر رہے تھے۔ اسلام کی برکتیں عام ہورہی تھیں‘ لوگ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی سیرت و کردار سے متاثر ہو کر جوق در جوق دائرہِ اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ اسلامی مملکتوں کے قیام اور دنیا کے وسیع و عریض خطے میں مسلمانوں کی حکمرانی اور سیاسی بالادستی قائم ہونے کے باوجود حکمرانوں نے تعلیم کی ترقی کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی۔ ان کی حکومتوں میں دورِ حاضر کی طرح کوئی محکمہ تعلیم قائم نہ تھا‘ نہ ہی باقاعدہ درسگاہوں کا جال بچھایا گیا تھا۔ جس سے علم حاصل کرنے والے اپنے علم کی پیاس بجھا سکتے۔
غرض مسلمان حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے اسلام کے نظامِ اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور انکی تہذیب و تمدن کے اثرات مقامی رعایا پر مرتب نہ ہو سکے۔ اب تمام ریاستوں میں جہاں مسلمان حکمران تھے۔تدریسی علوم کی زبان عربی تھی حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور مقامی زبان میں تدریس نہ ہونے کے باوجود علوم و فنون تیز رفتاری سے ترقی کے مراحل طے کر رہے تھے اور لوگ علم کے حصول میں بے پناہ دلچسپی کا مظاہرہ ررہے تھے جسکی وجہ سے ہر جگہ علم کا دور دورہ تھا
اقتباس ۴
ایک ایک شہر بلکہ ایک ایک گاﺅں علمی صداﺅں سے گونج اٹھا ہے۔ عام تعلیم کے لئے ہزاروں مکتب قائم ہیں جن میں سلطنت کا کچھ حصہ نہیں ہے اور جو آجکل کے تحصیلی مدارس سے زیادہ مفید اور فیاض ہیں‘ اوسط اور اعلی تعلیم کے لئے مسجدوں کے صحن‘ خانقاہوں کے حچرے‘ علماءکے ذاتی مکانات ہیں۔ لیکن ان سادہ اور بے تکلف عمارتوں میں جس وسعت اور فیاضی کے ساتھ علم کی تربیت ہو رہی تھی ‘ بڑے بڑے عالیشان قصر و ایوان میں بھی جو پانچویں صدی کے آغاز میں اس غرض سے تعمیر ہوئے‘ اس سے کچھ زیادہ نہ ہو سکی۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل شبلی نے لکھا ہے کہ ۵۴۱ھ تک تمام علوم کی تعلیم و تدریس میں حافظے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور علم کو ذہن در ذہن منتقل کیا جاتا تھا۔ نصاب میں حکماء اور مفکرین کے اقوال و بیانات شامل تھے۔لیکن ا س کے علاوہ جن علوم کو ترقی ہوئی ان میں قواعد کا علم ضروری سمجھا جانے لگا۔ علمِ معانی یعنی الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا علیحدہ مضمون قرار پایا۔ احکامِ شریعت کے علم نے علمِ فقہ کے نام سے جدا حیثیت حاصل کرلی ۔ اقوالِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ ایک جامع شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔ تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا مختلف ذرائع سے پیش کی جانے والی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کو پرکھنے اور روایوں کے حافظے و نسیان اور سیرت و کردار کو جانچنے کا عمل اور ان سے احادیث کا معیار قائم کرنے کا تحقیقی گرو علم بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔البتہ فلسفہ منطق پر بے توجہی برتی گئی۔
پیشِ نظر سطور میں شبلی کہتے ہیں کہ سرکاری طور پر سرپرستی نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی انفرادی کوششوں اور توجہ سے ہر اس جگہ علمی ترقی ہوئی جہاں مسلمان حکومتیں تھیں۔ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں‘ گلی گلی ‘ کوچہ کوچہ علم کا چرچا تھا۔ عوام و خاص علم کے فروغ اور حصل میں دلچسپی لیتے تھے۔ ہزاروں چھوٹے بڑے مدرسے اور درسگاہیں قائم تھیں۔ ان درسگاہوں کو حکومتی سطح پر امدادو اعانت اور سرپرستی حاصل نہ ہونے کے باوجود ان میں علم کو فروغ حاصل ہوا اور تحصیلِ علم کا موثر نظام قائم ہوا بےشمار لوگوں نے ان سے علمی پیاس بجھائی۔ ان سے علم حاصل کرنے والے‘ دورِ حاضر کے اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کے مقابلے میں زیادہ اہل اوربہتر عالم ٹھہرے جنھوںنے دنیا کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ بڑی بڑی عالی شان عمارتوں کے بجائے اس دور میں علمی مساجد کے صحن ‘ اولیاءکی خانقاہیں اور علماءکے سیدھے سادھے آرائش و زیبائش سے بے نیاز ذاتی مکانات تھے۔ لیکن ان سادہ اور بے تکلف مکینوں سے علم کے وسیع و عریض دریا جاری ہوئے جن سے متعدد لوگوں کو علمی سیرابی ہوئی۔ سچ ہے کہ پانچویں صدی کے آغاز میں اس مقصد کے حصل کیلئے تعمیر ہونے والی عالیشان اور بلند و بالا عمارات‘ محلات اور درسگاہوں نے کوئی قابلِ ذکر علمی کارنامہ انجام نہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروغِ علم کے لئے عمارت کا بلند و بالا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ طریقہ تدریس کے مﺅ ثر نظام کا بڑا دخل ہے
اقتباس ۵
اگرچہ متواتر انقلابات‘ تخت گاہوں کی بربادی‘ اسپین کی تباہی‘ تاتار کی عام غارت گری کے بعد ہمارے پاس جو کچھ رہ گیا ہے وہ ہزار میں ایک بھی نہیں ہے اور اس وجہ سے ہزاروں لاکھوں ناموروں کی صورتیں زمانے کی تاریخی نگاہ سے چھپ گئی ہیں۔ تاہم ہر عہد میں ہم سینکڑوں ماہرین و مجتہدینِ فن کا نشان دے سکتے ہیں۔
ربطِ ما قبل
علماءو فضلاءکے قائم کردہ ہر آسائش سے بے نیاز مکانات و ادارے علم کا مرکز تھے۔ جہاں صاحبانِ علم طلبہ کو سخاوت سے زیورِ علم سے آراستہ کررہے تھے۔ اورحصولِ علم کی دھن میں مست لوگ اپنی علمی پیاس بجھارہے تھے۔ حقیقت میں علمی فیض پہنچاتے میں ان درسگاہوں نے جو کام کیا اس کا مقابلہ بعد میں تعمیر ہونے والے عالیشان ایوان نہ کرسکے۔ حالانکہ ان ادارون کو کوئی حکومتی سرپرستی حاصل نہ تھی۔
تشریح
شبلی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا دوسرا دور علمی ترقی و اشاعت کا زریں دور تھا۔ حالانکہ اس دور کا کوئی ریکارڈ نہیں کیونکہ سب کچھ تاتار کے ہاتھوں یا انقلابِ زمانہ کی کرشمہ سازیوں کی نظر ہو گیا۔ جس کی وجہ سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی بتایا جاسکتا ہے کتنے فیصد لوگ علم سے بہرہ ور ہوئے اور کتنے فیصد لوگوں نے علمی کارنامے انجام دیے البتہ بے شمار تصانیف اور تواریخ کے حوالوں سے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے مسلمان حکومتیں گاہے بہ گاہے مختلف حملہ آوروں کی زد میں رہے ہیں کبھی تاتاریوں کی تباہ کاریوں سے دوچار ہوئیں کبھی انھیں اپنوں کی ریشہ دوانیوں نے نقصان پہنچایا۔ غرض یہ کہ بیرونی جارحوں نے ان سلطنتوں اور علمی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور تمام ذخائرِ علمی کو تباہ و برباد اور ملیامیٹ کردیا۔ جس کی وجہ سے بے شمار علمی شخصیات کے نام اور کارنامے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوئے جو کچھ ہم تک پہنچ سکا وہ ہزارواں حصہ بھی نہ تھا۔ اس طرح ہم اپنے تہذیبی ورثہ سے بڑی حد تک محروم ہوگئے