Hawala and Tashree Of Mebal Aur Main
Hawala and Tashree Of Mebal Aur Main
Mebal Aur Main
میبل اور میں
حوالہ
پیشِ نظر عبارت مضمون میبل اور میں سے لیا گیا ہے جس کے مصنف احمد شاہ پطرس بخاری ہیں۔
تعارفِ مصنف
احمد شاہ پطرس بخاری خالص مزاح کے علمبردار قلمکار ہیں۔ آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین کی زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت‘ حسنِ تعمیر‘ علمی ظرافت‘ زیرِلب تبسم‘ شوخی‘ طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ آپ کو اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ حکیم یوسف حسن پطرس کے بارے میں کہتے ہیں:
اگرمیں یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہندوپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔
تعارفِ سبق
احمد شاہ پطرس بخاری نے اس مضمون ُمیبل اور میں میں جس نکتہ نظر کو لفظوں کے احاطے میں مقید کیا ہے وہ دراصل مغرب کی پیداوار ہے۔جس کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں مردوعورت مساوی حقوق کے حامل ہیں۔ پطرس بخاری نے اسی نکتہ نظر کی سخت مذمت کی ہے اور طنزاََ اس زندہ حقیقت کو واضح کیا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں تو نہیں البتہ ایک دوسرے کو فریب دینے میں دونوں برابر ہیں۔
اقتباس ۱
لیکن اس تمام یکجہتی اور ہم آہنگی میں ایک خلش ضرور تھی۔ ہم دونوں نے بیسویں صدی میں پرورش ضرورپائی تھی۔ عورت اورمرد کی مساوات کے قائل تو ضرورتھے تاہم اپنے خیالات اور بعض اوقات اپنے رویے میںکبھی نہ کبھی اس کی تکذیب ضرور کردیتے تھے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارت میں مصنف عورت و مرد کے مساوات کے مغربی نظریہ کو طنز کا نشانہ بنارہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مغرب نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بظاہر تو قابلِ قبول ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال اور منطق انسانی فطرت کے خلاف ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا کے فلسفہ دانوں کے ان عقائد کی خلاف ورزی کرجاتا ہے۔ اللہ تعالی نے مرد اور عورت دو مختلف صنفیں بنائی ہیں اور ان کے دائرہ کار بالکل مختلف ہیں۔ اس کو اگر کسی بھی طرح ملا دیا جائے تو یہ انسانوں ہی کے لئے نقصان دہ ہے۔اور انسان اس ماحول میں اجنبیت کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ حالات و واقعات اسے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ یہ ہم آہنگی اور مرد و عورت کا میل جول قطعاً انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ مصنف اس کہانی میں اپنی مثال دیتے ہوئے اس نظریہ کی تردید کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کی ایک دوست جو تعلیمی سرگرمیوں میں ساتھ ساتھ ہوتے تھے اور اکثر نشستوں میں ایک ساتھ ہی بیٹھتے تھے یہاں تک کہ ان کے خیالات بھی کافی ہم آہنگ تھے۔ اس کے باوجود ان کا رویہ‘ ان کے خیالات اور ان کے عملی مشاغل سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ فطری لحاظ سے اس صدی کا یہ نظریہ غلط ہے۔ اکثر اوقات ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن سے مرد کی برتری اور عورت کی ناتوانی ثابت ہوجاتی ہے
اقتباس ۲
کبھی کبھی میرے جسم کے اندر میرے ایشیائی آباﺅاجداد کا خون جوش مارتا‘ اور دل جدید تہذیب سے باغی ہوکر مجھ سے کہتا کہ مرد اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرح میبل عورت و مرد کی مساوات کا اظہار مبالغے کے ساتھ کرتی تھی‘ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ وہ عورتوں کو کائنات کی رہبر اور مردوں کو حشرات الارض سمجھتی ہے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارت میں مصنف مرد و عورت کے درمیان پائی جانے والی اس کشمکش کا ذکر کر رہا ہے جس کے تحت ایک طبقہ دوسرے طبقے کو حقیر اور خود کو افضل سمجھتا ہے اور اپنے قول و فعل سے اسے ثابت کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ مصنف اس کہانی میں جس کردار کی ترجمانی کر رہے ہیں وہ بھی برتری کی اسی بھاگ دوڑ میں مگن نظر آتا ہے۔ یہ کردار جو خود اس مخلوط نظام میں پرورش پارہا ہے کہتا ہے کہ اکثر و بیشتر مجھے ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے کہ مخالف طبقہ مجھے احساسِ کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے میرے اندر جلن کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔میں جو عام حالات میں کسی طور پر اس نظریہ کا قائل و حامی ہوں واپس اپنے مشرقی بزرگوں کے خیالات کی طرف لوٹ آتا ہوں اور اپنے دل کویہ کہہ کر تسلی دیتا ہوں کہ مرد ہی عورت سے افضل ہے اور مرد ہی کو برتری حاصل ہے۔ میں مردوں کے معاشرے‘ عورت کی آدھی گواہی اور بائیں پسلی کی پیدائش کو دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عورت و مرد کی مساوات کا بالکل مخالف ہوجاتا ہوں اور مجھے اپنے آباﺅجداد کے نظریے بالکل صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ اس کے برعکس جب دوسرا طبقہ جب یہی بات سامنے لاتا ہے تو تمام باتوں کا مفہوم ہی پلٹ جاتا ہے اور یہی دلائل میرے خلاف بہت مﺅثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات مجھ پر بہت خوبصورتی سے واضح ہوجاتی ہے کہ مرد و عورت کسی بھی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ عورت بھی اسی اہمیت کی مالک ہے جتنی کہ مرد۔ بعض اوقات تو میں یہ بھی سن لیتا کہ صنفِ نازک کا یہ طبقہ اس قدر افضل ہے کی حکمرانی کا منصب اسی کے لئے ہے اور مردوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ مصنف نے دونوں طبقات کی اس جستجو کا ذکر کیا ہے جو ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے کے لئے ہمیشہ جاری رہتی ہے+
اقتباس ۳
جان یا مال کا ایثار سہل ہے لیکن آن کی خاطر نیک سے نیک انسان بھی ایک نہ ایک دفعہ تو ضرور ناجائز ذرائع کے استعمال پر اتر آتا ہے۔ اسے میری اخلاقی پستی سمجھئے لیکن یہی حالت میری بھی ہوگئی۔
تشریح
اس کہانی میں مصنف نے جس کردار کی ترجمانی کی ہے وہ مغربی معاشرے میں پرورش پارہا ہے اور مخلوط تعلیمی نظام کے تجربے سے گزرہا ہے۔ وہ اس وقت نہایت مشکل سے دوچار ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی مخالف صنف کی ایک دوست جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتی ہے کچھ اس طرح کے واقعات رونما کر دیتی ہے عورت کی برتری اور مرد کی کمتری ثابت ہو۔ مشکل اور معروف کتابیں وہ اس کے حوالے یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ وہ ان کا مطالعہ کر چکی ہے اور تم بھی پڑھ لو تاکہ تبصرہ کرنے میں لطف آئے۔ یہ کردار اس ناممکن عمل کو سرانجام نہیں پاتا اور آخرکار تبصرے کا وقت آجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے کسی کو دھوکہ دینا‘ اس کے ساتھ فریب کرنا اور جھوٹ بولنا غلط بات ہے لیکن بات جب عزت و آن کی ہو تو شریف سے شریف اور نیک سے نیک انسان بھی غلط قدم اس لئے اٹھا لیتا ہے تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے۔ اس تمام واقعے کے بعد میری حالت بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ میں مردوں کی عزت کی خاطر اب مجبوراً دوسرا راستہ اختیار کروں گا تاکہ کچھ لاج رہ جائے۔ مصنف اپنے اس عمل کو خود بھی غلط قدم کہہ رہے ہیں لیکن عزتِ نفس کی خاطر وہ سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔
اس واقعے کی روشنی میں مصنف دراصل ایسے نظام کو طنز کا نشانہ بنارہے ہیں جس کی بدولت ان واقعات نے جنم لیا۔ وہ حقیقتاً اس بات کو اٹھارہے ہیں کہ مردو عورت کے مساوی حقوق کا اگر اس طرح نفاذ ہوگا تو اس طرح کے غلط اٹھانے پر انسان خود ہی مجبور ہوگا
میبل اور میں
حوالہ
پیشِ نظر عبارت مضمون میبل اور میں سے لیا گیا ہے جس کے مصنف احمد شاہ پطرس بخاری ہیں۔
تعارفِ مصنف
احمد شاہ پطرس بخاری خالص مزاح کے علمبردار قلمکار ہیں۔ آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین کی زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت‘ حسنِ تعمیر‘ علمی ظرافت‘ زیرِلب تبسم‘ شوخی‘ طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ آپ کو اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ حکیم یوسف حسن پطرس کے بارے میں کہتے ہیں:
اگرمیں یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہندوپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔
تعارفِ سبق
احمد شاہ پطرس بخاری نے اس مضمون ُمیبل اور میں میں جس نکتہ نظر کو لفظوں کے احاطے میں مقید کیا ہے وہ دراصل مغرب کی پیداوار ہے۔جس کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں مردوعورت مساوی حقوق کے حامل ہیں۔ پطرس بخاری نے اسی نکتہ نظر کی سخت مذمت کی ہے اور طنزاََ اس زندہ حقیقت کو واضح کیا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں تو نہیں البتہ ایک دوسرے کو فریب دینے میں دونوں برابر ہیں۔
اقتباس ۱
لیکن اس تمام یکجہتی اور ہم آہنگی میں ایک خلش ضرور تھی۔ ہم دونوں نے بیسویں صدی میں پرورش ضرورپائی تھی۔ عورت اورمرد کی مساوات کے قائل تو ضرورتھے تاہم اپنے خیالات اور بعض اوقات اپنے رویے میںکبھی نہ کبھی اس کی تکذیب ضرور کردیتے تھے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارت میں مصنف عورت و مرد کے مساوات کے مغربی نظریہ کو طنز کا نشانہ بنارہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مغرب نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بظاہر تو قابلِ قبول ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال اور منطق انسانی فطرت کے خلاف ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا کے فلسفہ دانوں کے ان عقائد کی خلاف ورزی کرجاتا ہے۔ اللہ تعالی نے مرد اور عورت دو مختلف صنفیں بنائی ہیں اور ان کے دائرہ کار بالکل مختلف ہیں۔ اس کو اگر کسی بھی طرح ملا دیا جائے تو یہ انسانوں ہی کے لئے نقصان دہ ہے۔اور انسان اس ماحول میں اجنبیت کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ حالات و واقعات اسے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ یہ ہم آہنگی اور مرد و عورت کا میل جول قطعاً انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ مصنف اس کہانی میں اپنی مثال دیتے ہوئے اس نظریہ کی تردید کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کی ایک دوست جو تعلیمی سرگرمیوں میں ساتھ ساتھ ہوتے تھے اور اکثر نشستوں میں ایک ساتھ ہی بیٹھتے تھے یہاں تک کہ ان کے خیالات بھی کافی ہم آہنگ تھے۔ اس کے باوجود ان کا رویہ‘ ان کے خیالات اور ان کے عملی مشاغل سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ فطری لحاظ سے اس صدی کا یہ نظریہ غلط ہے۔ اکثر اوقات ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن سے مرد کی برتری اور عورت کی ناتوانی ثابت ہوجاتی ہے
اقتباس ۲
کبھی کبھی میرے جسم کے اندر میرے ایشیائی آباﺅاجداد کا خون جوش مارتا‘ اور دل جدید تہذیب سے باغی ہوکر مجھ سے کہتا کہ مرد اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرح میبل عورت و مرد کی مساوات کا اظہار مبالغے کے ساتھ کرتی تھی‘ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ وہ عورتوں کو کائنات کی رہبر اور مردوں کو حشرات الارض سمجھتی ہے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارت میں مصنف مرد و عورت کے درمیان پائی جانے والی اس کشمکش کا ذکر کر رہا ہے جس کے تحت ایک طبقہ دوسرے طبقے کو حقیر اور خود کو افضل سمجھتا ہے اور اپنے قول و فعل سے اسے ثابت کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ مصنف اس کہانی میں جس کردار کی ترجمانی کر رہے ہیں وہ بھی برتری کی اسی بھاگ دوڑ میں مگن نظر آتا ہے۔ یہ کردار جو خود اس مخلوط نظام میں پرورش پارہا ہے کہتا ہے کہ اکثر و بیشتر مجھے ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے کہ مخالف طبقہ مجھے احساسِ کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے میرے اندر جلن کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔میں جو عام حالات میں کسی طور پر اس نظریہ کا قائل و حامی ہوں واپس اپنے مشرقی بزرگوں کے خیالات کی طرف لوٹ آتا ہوں اور اپنے دل کویہ کہہ کر تسلی دیتا ہوں کہ مرد ہی عورت سے افضل ہے اور مرد ہی کو برتری حاصل ہے۔ میں مردوں کے معاشرے‘ عورت کی آدھی گواہی اور بائیں پسلی کی پیدائش کو دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عورت و مرد کی مساوات کا بالکل مخالف ہوجاتا ہوں اور مجھے اپنے آباﺅجداد کے نظریے بالکل صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ اس کے برعکس جب دوسرا طبقہ جب یہی بات سامنے لاتا ہے تو تمام باتوں کا مفہوم ہی پلٹ جاتا ہے اور یہی دلائل میرے خلاف بہت مﺅثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات مجھ پر بہت خوبصورتی سے واضح ہوجاتی ہے کہ مرد و عورت کسی بھی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ عورت بھی اسی اہمیت کی مالک ہے جتنی کہ مرد۔ بعض اوقات تو میں یہ بھی سن لیتا کہ صنفِ نازک کا یہ طبقہ اس قدر افضل ہے کی حکمرانی کا منصب اسی کے لئے ہے اور مردوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ مصنف نے دونوں طبقات کی اس جستجو کا ذکر کیا ہے جو ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے کے لئے ہمیشہ جاری رہتی ہے+
اقتباس ۳
جان یا مال کا ایثار سہل ہے لیکن آن کی خاطر نیک سے نیک انسان بھی ایک نہ ایک دفعہ تو ضرور ناجائز ذرائع کے استعمال پر اتر آتا ہے۔ اسے میری اخلاقی پستی سمجھئے لیکن یہی حالت میری بھی ہوگئی۔
تشریح
اس کہانی میں مصنف نے جس کردار کی ترجمانی کی ہے وہ مغربی معاشرے میں پرورش پارہا ہے اور مخلوط تعلیمی نظام کے تجربے سے گزرہا ہے۔ وہ اس وقت نہایت مشکل سے دوچار ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی مخالف صنف کی ایک دوست جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتی ہے کچھ اس طرح کے واقعات رونما کر دیتی ہے عورت کی برتری اور مرد کی کمتری ثابت ہو۔ مشکل اور معروف کتابیں وہ اس کے حوالے یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ وہ ان کا مطالعہ کر چکی ہے اور تم بھی پڑھ لو تاکہ تبصرہ کرنے میں لطف آئے۔ یہ کردار اس ناممکن عمل کو سرانجام نہیں پاتا اور آخرکار تبصرے کا وقت آجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے کسی کو دھوکہ دینا‘ اس کے ساتھ فریب کرنا اور جھوٹ بولنا غلط بات ہے لیکن بات جب عزت و آن کی ہو تو شریف سے شریف اور نیک سے نیک انسان بھی غلط قدم اس لئے اٹھا لیتا ہے تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے۔ اس تمام واقعے کے بعد میری حالت بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ میں مردوں کی عزت کی خاطر اب مجبوراً دوسرا راستہ اختیار کروں گا تاکہ کچھ لاج رہ جائے۔ مصنف اپنے اس عمل کو خود بھی غلط قدم کہہ رہے ہیں لیکن عزتِ نفس کی خاطر وہ سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔
اس واقعے کی روشنی میں مصنف دراصل ایسے نظام کو طنز کا نشانہ بنارہے ہیں جس کی بدولت ان واقعات نے جنم لیا۔ وہ حقیقتاً اس بات کو اٹھارہے ہیں کہ مردو عورت کے مساوی حقوق کا اگر اس طرح نفاذ ہوگا تو اس طرح کے غلط اٹھانے پر انسان خود ہی مجبور ہوگا