Azaadi ke rah main
Azaadi ke rah main
Azaadi ke rah main
آزادی کی راہ میں
تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے
اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے!
آزادی کی راہ میں
تمھیں چراغ بجھانے کا غرور ہے لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے
اس سبق کی مصنفہ ممتاز ترقی پسند افسانہ نگار وہ ناول نویس خدیجہ مستور ہیں اور یہ اُن کے مشہور دو معروف ناول آنگن کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ اُن کا یہ ناول کردارنگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کہتے ہیں:
آنگن کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ اِس کینوس پر پورا برّ صغیر رنگ بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ خدیجہ مستور نے تحریکِ جدوجہدِ آزادی کے پسِ منظر میں یہ ناول لکھا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ:
آزادی کے متوالے غلامی کے خلاف نفرت رکھتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے جذبات کا یہ آتش فشاں پھوٹ بہتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی عالیہ ہے لیکن اِس کردار کے پسِ پردہ دراصل مصنفہ خود ہیں اور یہ اُن کے گھر کی کہانی ہے۔ اُن کے والد انگریز سرکار کے ملازم ہیں لیکن اُن سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے بارے میں گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار اُن کا ایک انگریز افسر دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو اُن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں۔ ڈاک بنگلے میں اُسے ٹہرانے کا انتظام ہوتا ہے۔ گھر کے میز پوش اور گلدان وغیرہ بھی وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اور اُس کے لئے بہترین کھانے پکانے کی ہدایت بھی جاری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر عالیہ کی والدہ اُن کا مذاق اُڑاتی ہیں اور کہتی ہیں:
خوب! انگریزوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اب وہ آ رہا ہے تو مارے ڈر کے سٹی گُم ہے حضرت کی! زبانی جمع خرچ کرنے میں کیسے تیز ہوتے ہیں لوگ بھی۔
ایسی باتیں سن کر عالیہ کو اپنی ماں پر بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتی کہ:
کاش وہ ایک ذرا دیر کو امّاں کی امّاں بن سکتی تو پھر بتاتی کہ چھیڑ خانی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
بہرحال عالیہ کے والد بہت سویرے ہی اس انگریز افسر کے خیر مقدم کیلئے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر تک واپس نہیں آتے ہیں۔ ادھر دسترخوان مختلف انواع و اقسام کی خوشبوﺅں سے مہک رہا ہوتا ہے کہ ایک چپراسی گھبرایا ہوا آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ عالیہ کے والد نے اسٹیشن پر ہی اُس انگریز افسر کا سر پھاڑ دیا ہے کیونکہ اس نے انہیں ڈیم فول کہہ دیا تھا اور اب وہ حوالات میں بند ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع عالیہ کے ماموں اور چچا تک پہنچائی جاتی ہے چونکہ اس گھرانے کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ماموں تو اس کام سے یہ کہہ کر فرار حاصل کر لیتے ہیں کہ:
اقدامِ قتل بہت بڑا جُرم ہے، ایسے آدمی کی بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے۔
لیکن چچا چونکہ انگریزوں اور ماموں دونوں سے نفرت کرتے ہیں وہ برملا انگریزوں پر بگڑتے ہیں اور یہاں اہلِ خانہ کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ روانہ ہونے کے لئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں تو عالیہ کی اسکول کی نگران عیسائی خاتون انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ:
تم لوگ کھوش رہنا، گَم مت کرنا، تمارا فادر بوت اچھا آدمی تھا، تمارا ملک جرور آباد ہوگا۔
چچا کے گھر پہنچنے کے بعد عالیہ بستر پر کروٹیں بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اُن کے والد کا قید میں کیا حال ہو گا؟ کاش اُسے نیند آ جائے یا صبح ہو جائے!