Alama Iqbal ke Khatoot
Alama Iqbal ke Khatoot
Alama Iqbal ke
Khatoot
خطوط - علامہ اقبال
حوالہ
مندرجہ بالا عبارت علامہ محمد اقبال کے خط سے لی گئی ہے جو انہوں نے اپنے رقیب مولوی انشاءاللہ خان کے نام تحریر کیا۔
تعارفِ خطوط نگار
علامہ اقبال وہ صاحبِ پیغام مفّکر ہیں جنہوں نے آفاقی شاعری کی بنیاد رکھی اور سازِ سخن کو وسیلہ بنا کر اسلامی انقلاب کے لئے راہ ہموار کی۔ ایک انقلاب آفریں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ خطوط نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ خطوطِ اقبال میں جو لب و لہجہ پایا جاتا ہے اُس میں ایک حکیمانہ وقار، داعیانہ جوش و جلال اور دردمندانہ تڑپ ہے۔ تعارفِ خط
یہ خط اقبال نے اُس وقت تحریر کیا جب وہ بحری جہاز پر دہلی سے انگلستان کا سفر طے کر رہے تھے۔خطوط نگار کا مقصد انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کا حصول تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں بھی کیا ہے۔ اِس خط میں اقبال نے دہلی اور بمبئی کے واقعات و مناظر کے علاوہ عرب سرزمین کے دیدار پر اپنے تاثرات بھی بیان کئے ہیں۔ اِس خط سے اُن میں پائی جانے والے عشق کا اظہار ہوتا ہے اور اُن کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے۔
اقتباس ۱
اے عرب کی مقدس سرزمین تجھ کو مبارک ہو۔ تو ایک پتھر تھی جسے دنیا کے معماروں نے رد کر دیا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں کیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی! تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدر نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا۔
تشریح
پیش نظر عبارت اُس وقت کی تحریر ہے جب اقبال عرب کی معتبر زمین یعنی عدن کے ساحل کے نزدیک ہو رہے تھے۔ اُن پر ایک والہانہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اُن کا قلم جذبات کی رو میں بہہ کر سچے عشق و لگاﺅ کی آئینہ داری کرتاہے۔ ان بابرکت صحراﺅں کے لئے آپ کا لامحدود اور بے پایاں پیار ایک بے چینی اور اضطراب کو جنم دیتا ہے۔ اس کیفیت میں اُس سچے عاشق کے ذہن میں وہ دھندلے نقوش سمٹ آتے ہیں جو اُس کی کتاب اُسے دکھاتی ہے اور وہ اِن میدانوں کی توصیف و عظمت بڑی خوبصورتی سے قلم بند کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کے عرب جغرافیائی اعتبار سے ایسے چٹیل، بیابان اور بے وقعت صحراﺅں کا مجموعہ ہے جو انسانی فکر کے پیمانوں سے نہایت بے کراں اور بے حیثیت ثابت ہوا ہے اور جہاں رہنے والے مشکل و پریشانی میں اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ لیکن اِس جہت کی کیا شان ہے کہ یہاں سے حضورِ اقدس، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنم لیا۔ اس سرزمین کا کیا کہنا جہاں آسمانوں کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن گزرا، جہاں اِس انسان نے علم و معرفت کا بیج بو کر ایک صحرا سے سرسبز و تناور درخت اُگایا۔ عرب کے چٹیل میدان وہ میدان ہیںجہاں ایک ایسی تہذیب و تمدن ترتیب پائی جو پوری دنیا نے اپنائی ہوئی ہے، جہاں اللہ کے وہ برگزیدہ بندے سانس لیتے تھے جنہیں جنت الفردوس کی بشارتیں تھیں اور جہاں وہ شخصیتیں بستی تھیں جن کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ یہ خط تحریر کرتے وقت اقبال کا چشم تصور وہ مناظر تخلیق کرتا ہے گویا بندگانِ خدا کا دور واپس آ گیا ہواور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کھجوروں کے درختوں کے نیچے سورج کی تپش سے بچنے کے لئے آرام فرما رہے ہوں۔ اِن عبارات کو رقم کرتے وقت اقبال دینِ خداوندی کے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن نظر آتے ہیں جس کا پانی اگر ساری انسانیت کی پیاس بجھانے کے لئے بھی صرف کر دیا جائے تو بھی اس میں کمی واقع نہ ہوگی
اقتباس ۲
جہاز کے سفر میںدل پر اثر ڈالنے والی چیز سمندر کا نظارا ہے۔باری تعالی کی قوتِ نامتنائی کا جو اثر سمندر دیکھ کر ہوتا ہے شائد ہی کسی اور چیز سے ہوتا ہو۔ حجِ بیت اللہ میں جو تمدنی اور روحانی فوائد ہیں‘ ان سے قطعِ نظر کرکے ایک بڑا اخلاقی فائدہ سمندر کی ہیبت ناک موجوں اور اس کی خوفناک وسعت کا دیکھنا ہے جس سے مغرور انسان کو اپنے ہیچِ محض ہونے کا پورا پورا یقین ہوجاتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارات خطوط نگار نے اس وقت رقم کی ہیں جب وہ حجِ بیت اللہ کی ادائیگی کے لئے مقدس سرزمینِ عرب کی جانب گامزن تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ دورانِ سفر وسیع و عریض سمندر کا ہیبت ناک نظارہ ذہن کو ہلا دیتا ہے اور اس کی بے باک موجیں دل پر ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ بلند ہوتی لہریں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ بحری جہاز معمولی کشتی کی طرح ڈولنے لگتا ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے جس پر ایک تنہا لوگوں کا گروہ جانبِ منزل رواں ہوتاہے۔ یہی تنہائی انسانی عقل و فہم کو غورو فکر کی بھرپور دعوت دیتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک ایسی ہستی کا اقرار کرلے جو مطلقِ کل ہو اور جس کی رضا و مشیت سے تمام اعمال مشروط ہوں۔ اتنے بڑے سمندر کو اپنے چاروں طرف دیکھ کر مغرور سے مغرور انسان کو بھی اپنے تکبر کا گلا گھنٹتا محسوس ہوتا ہے۔اس کے دل میں ایک غیر یقینی کیفیت جنم لیتی ہے جو اسے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ وہ زندہ بچ بھی سکے گا یا نہیں۔ اس کا دل خود ہی اس نگہبانِ حقیقی کی طرف کھنچ جاتا ہے جو اس کا بھی خالق ہے اور اس وسیع و عریض میں موجود ہر شے کا بھی۔ خطوط نگار نے اپنے مشاہدے کی روشنی میں یہ نظریہ بجا طور پر پیش کیا ہے کہ حج کرنے سے انسان کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ دورانِ سفرخشیتِ الہی کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں اور انسان غرور و تکبر کی کیفیات سے نکل جاتا ہے۔ اس طرح حج کی تکمیل اس کے اصل معنوں میں ہوتی ہے
خطوط - علامہ اقبال
حوالہ
مندرجہ بالا عبارت علامہ محمد اقبال کے خط سے لی گئی ہے جو انہوں نے اپنے رقیب مولوی انشاءاللہ خان کے نام تحریر کیا۔
تعارفِ خطوط نگار
علامہ اقبال وہ صاحبِ پیغام مفّکر ہیں جنہوں نے آفاقی شاعری کی بنیاد رکھی اور سازِ سخن کو وسیلہ بنا کر اسلامی انقلاب کے لئے راہ ہموار کی۔ ایک انقلاب آفریں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ خطوط نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ خطوطِ اقبال میں جو لب و لہجہ پایا جاتا ہے اُس میں ایک حکیمانہ وقار، داعیانہ جوش و جلال اور دردمندانہ تڑپ ہے۔ تعارفِ خط
یہ خط اقبال نے اُس وقت تحریر کیا جب وہ بحری جہاز پر دہلی سے انگلستان کا سفر طے کر رہے تھے۔خطوط نگار کا مقصد انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کا حصول تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں بھی کیا ہے۔ اِس خط میں اقبال نے دہلی اور بمبئی کے واقعات و مناظر کے علاوہ عرب سرزمین کے دیدار پر اپنے تاثرات بھی بیان کئے ہیں۔ اِس خط سے اُن میں پائی جانے والے عشق کا اظہار ہوتا ہے اور اُن کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے۔
اقتباس ۱
اے عرب کی مقدس سرزمین تجھ کو مبارک ہو۔ تو ایک پتھر تھی جسے دنیا کے معماروں نے رد کر دیا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں کیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی! تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدر نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا۔
تشریح
پیش نظر عبارت اُس وقت کی تحریر ہے جب اقبال عرب کی معتبر زمین یعنی عدن کے ساحل کے نزدیک ہو رہے تھے۔ اُن پر ایک والہانہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اُن کا قلم جذبات کی رو میں بہہ کر سچے عشق و لگاﺅ کی آئینہ داری کرتاہے۔ ان بابرکت صحراﺅں کے لئے آپ کا لامحدود اور بے پایاں پیار ایک بے چینی اور اضطراب کو جنم دیتا ہے۔ اس کیفیت میں اُس سچے عاشق کے ذہن میں وہ دھندلے نقوش سمٹ آتے ہیں جو اُس کی کتاب اُسے دکھاتی ہے اور وہ اِن میدانوں کی توصیف و عظمت بڑی خوبصورتی سے قلم بند کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کے عرب جغرافیائی اعتبار سے ایسے چٹیل، بیابان اور بے وقعت صحراﺅں کا مجموعہ ہے جو انسانی فکر کے پیمانوں سے نہایت بے کراں اور بے حیثیت ثابت ہوا ہے اور جہاں رہنے والے مشکل و پریشانی میں اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ لیکن اِس جہت کی کیا شان ہے کہ یہاں سے حضورِ اقدس، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنم لیا۔ اس سرزمین کا کیا کہنا جہاں آسمانوں کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن گزرا، جہاں اِس انسان نے علم و معرفت کا بیج بو کر ایک صحرا سے سرسبز و تناور درخت اُگایا۔ عرب کے چٹیل میدان وہ میدان ہیںجہاں ایک ایسی تہذیب و تمدن ترتیب پائی جو پوری دنیا نے اپنائی ہوئی ہے، جہاں اللہ کے وہ برگزیدہ بندے سانس لیتے تھے جنہیں جنت الفردوس کی بشارتیں تھیں اور جہاں وہ شخصیتیں بستی تھیں جن کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ یہ خط تحریر کرتے وقت اقبال کا چشم تصور وہ مناظر تخلیق کرتا ہے گویا بندگانِ خدا کا دور واپس آ گیا ہواور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کھجوروں کے درختوں کے نیچے سورج کی تپش سے بچنے کے لئے آرام فرما رہے ہوں۔ اِن عبارات کو رقم کرتے وقت اقبال دینِ خداوندی کے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن نظر آتے ہیں جس کا پانی اگر ساری انسانیت کی پیاس بجھانے کے لئے بھی صرف کر دیا جائے تو بھی اس میں کمی واقع نہ ہوگی
اقتباس ۲
جہاز کے سفر میںدل پر اثر ڈالنے والی چیز سمندر کا نظارا ہے۔باری تعالی کی قوتِ نامتنائی کا جو اثر سمندر دیکھ کر ہوتا ہے شائد ہی کسی اور چیز سے ہوتا ہو۔ حجِ بیت اللہ میں جو تمدنی اور روحانی فوائد ہیں‘ ان سے قطعِ نظر کرکے ایک بڑا اخلاقی فائدہ سمندر کی ہیبت ناک موجوں اور اس کی خوفناک وسعت کا دیکھنا ہے جس سے مغرور انسان کو اپنے ہیچِ محض ہونے کا پورا پورا یقین ہوجاتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارات خطوط نگار نے اس وقت رقم کی ہیں جب وہ حجِ بیت اللہ کی ادائیگی کے لئے مقدس سرزمینِ عرب کی جانب گامزن تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ دورانِ سفر وسیع و عریض سمندر کا ہیبت ناک نظارہ ذہن کو ہلا دیتا ہے اور اس کی بے باک موجیں دل پر ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ بلند ہوتی لہریں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ بحری جہاز معمولی کشتی کی طرح ڈولنے لگتا ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے جس پر ایک تنہا لوگوں کا گروہ جانبِ منزل رواں ہوتاہے۔ یہی تنہائی انسانی عقل و فہم کو غورو فکر کی بھرپور دعوت دیتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک ایسی ہستی کا اقرار کرلے جو مطلقِ کل ہو اور جس کی رضا و مشیت سے تمام اعمال مشروط ہوں۔ اتنے بڑے سمندر کو اپنے چاروں طرف دیکھ کر مغرور سے مغرور انسان کو بھی اپنے تکبر کا گلا گھنٹتا محسوس ہوتا ہے۔اس کے دل میں ایک غیر یقینی کیفیت جنم لیتی ہے جو اسے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ وہ زندہ بچ بھی سکے گا یا نہیں۔ اس کا دل خود ہی اس نگہبانِ حقیقی کی طرف کھنچ جاتا ہے جو اس کا بھی خالق ہے اور اس وسیع و عریض میں موجود ہر شے کا بھی۔ خطوط نگار نے اپنے مشاہدے کی روشنی میں یہ نظریہ بجا طور پر پیش کیا ہے کہ حج کرنے سے انسان کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ دورانِ سفرخشیتِ الہی کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں اور انسان غرور و تکبر کی کیفیات سے نکل جاتا ہے۔ اس طرح حج کی تکمیل اس کے اصل معنوں میں ہوتی ہے