Nazir Akbar Abadi
Nazir Akbar Abadi
نظیر اکبر آبادی
ایک تعارف
نظیر اکبر آبادی اردو ادب کے پہلے عوامی شاعر ہیں۔ وہ
اردو ادب کی آبرو ہیں۔ ان سی اردو ادب میں ایک نئے دبستان فکر کی بنیاد پڑتی ہے۔
وہ ہمارے قومی اور تہذیبی رنگ کا سرچشمہ ہیں۔ وہ جدید اردو ادب کے پیغمبر ہیں ۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جدید شاعری کی ابتداءمحمد حسین آزاد اور الطاف حسین
حالی سے ہوئی لیکن نظیر اکبر آبادی ان سے بہت پہلے جدید شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔
انہوں نے بیشمار ایسی نظمیں کہیں جن کی بنیاد پر اردو کے پہلے عوامی شاعر کہے جاتے
ہیں اور آج جو یہ شاعری ہمیں نظر آتی ہے اس کی ابتداءکرنے والے بھی نظیر اکبر
آبادی ہی ہیں۔ اسی لئے انہیں جدید اردو شاعری کا پیش رو کہا جاتا ہے۔
مجنوں گورکھپوری کی رائے ہے:
نظیر پہلے شاعر تھے جن کو میں نے زمین پر کھڑے زمین کی
چیزوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے پایا اور پہلی مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ شاعری
کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔
مشہور و معروف نظمیں
نظیر کی چند ایسی نظوم جن سے انہوں نے شہرتِ دوام پائی
وہ ذیل میں درج ہیں:
- من
موجی
- پنجری
کا عالم
- ہر
حال میں خوش
- کوڑی
نہ رکھ کفن کو
- بنجارہ
نامہ
- اسرارِ
قدرت
- برسات
کی بہاریں
- آدمی
نامہ
- برسات
کا تماشہ
- ہنس
نامہ
نظیر کے محاسنِ کلام
نظیر اکبر آبادی کے محاسن کلام ذیل میں درج ہیں۔
(۱) نیچرل شاعری
نیچرل شاعری جس کی بنیاد پر آزاد اور حالی نے ڈالی تھی۔
اس کے پیش رو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی ہی تھے۔ وہ اپنی نظموں میں اخلاقی تلقین
اور سماجی اصلاح کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے
کہ انہوں نے لفظی صناعی کے بجائے ”خیال“ اور جذبے کو شاعری کا معیار قرار دیا اور
مبالغہ آرائی اور مضمون افرینی سے ہٹ کر سادگی اور فکری وجدت کی نظیر قائم کی۔
انہوں نے اپنی نظوم میں مناظرِ فطرت کے بے مثال مرقع پیش کئے۔ عوام کے مشاغل‘ میلے
ٹھےلے‘ تہوار اور آپس میں میل ملاپ کی ہو بہو تصاویر انہوں نے سیدھے سادھے مﺅثر انداز میں کھینچ دی ہیں کہ
ان پر مبالغے کا گمان نہیں ہوتا۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نادار و بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی (آدمی نامہ)
پروفیسر سجاد باقر رضوی کے مطابق:
نظیر فطری نقطہ نگاہ سے انسان کو نہیں دیکھتے‘ وہ انسانی
نقطہ نگاہ سے فطرت کو دیکھتے ہیں۔
(۲) روایتی شاعری سے بغاوت
نظیر کی شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے گل و
بلبل‘ کاکل و عارض اور وصل و فراق کی شاعری کو بالکل ترک کردی۔ انہوں نے غزل کی
بجائے نظم کو اظہار کا وسیلہ بنایا انہوں نے اردو نظم نگاری کو بلندی و وسعت عطا
کی اور اس کی ذریعے تعمیری و افادی ادب تخلیق کیا۔ انہوں نے اپنے کلام سے وعظ و
نصیحت کا ایسا کام لیا کہ ایک زمانہ اس کا معترف ہے اس نے کلام کا ہر رنگ بے مثال
ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اثروجذب مین ڈوبا ہوا ہے اور یہ چیز اس وقت تک ممکن
نہیں ہوسکتی جب تک شاعر کا دل مخلص نہ ہو۔ نظیر میں یہ صفت موجود تھی۔ نظیر کی
تمام شاعری حالی کے اس شعر کی تفسیر ہے
اے شعر! دل فریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تو
مجنوں گورکھپوری فرماتے ہیں:
غدر کے بعد اردو شاعری نے جو جنم لیا اس میں شعوری اور
غیر شعوری طور پر نظیر کا اثر کام کررہا ہے۔
(۳) ادب برائے زندگی
نظیر نے ہماری نظم نگاری کو تمام زندگی اور اس کے مسائل
کا ترجمان بنادیا اوریوں ادب زندگی کا آئینہ بن گیا۔ وہ صرف موضوعات کے انتخاب کے
ذریعے ہی ادب اور زندگی کی قربت کا وسیلہ نہ بنے بلکہ انہوں نے بول چال کے عام
الفاظ کو اپنی شاعری میں استعمال کیا۔
ڈاکٹر فیلن نے نظیر کی شاعری کے بارے میںایک جگہ تحریر
کیا ہے:
صرف یہی ایک شاعر ہے جس کی شاعری اہلِ فرنگ کے نصاب کے
مطابق سچی شاعری ہے۔ نظیر کی ایک
نظم زر کا ایک بند ملاحظہ ہو
دنیا میں کون ہے جو نہیں مبتلائے زر
جتنے ہیں سب کے دل میں بھری ہے ہوائے زر
آنکھوں میں دل میں جان میں سینے میں فائے زر
ہم کو بھی کچھ تلاش نہیں اب سوائے زر
جو ہے سو ہو رہا ہے سرا مبتلائے زر
ہر اک یہی پکارے ہی دن رات ہوئے زر
(۴) نرالے اسالیب
نظیر کے دل کی بات ہرشخص کے دل کی بات ہوتی ہے۔ اندازِ
بیان میں اگرچہ اچھوتا پن بھرا ہوتا ہے۔ یہی شاعری کی اصل خصوصیت ہوتی ہے یعنی
جذبات و خیالات سادہ ہوں اور اسالیب نرالے۔ نظیر نے اپنی نظموں میں یہی کیا ہے۔
انہوں نے خود ہمارے دل کی باتیں ہم کو بتائی ہیں۔ جن باتوں کو عموماً ہم بھولے
رہتے ہیں نظیر ان باتو ں کو اس طرح یاد دلاتے ہیں کہ پھر کبھی ہم ان کو بھول نہیں
سکتے۔ ان کی شاعری اس شعر کی تفسیر ہے
افسانہ تیرا رنگین روداد تیری دلکش
شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا
ان کی نظم برسات کی
بہاریں سے اقتباس ہے
گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر
اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس مےں آن اکثر
پھسلا کوئی‘ کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر
ہوتے ہیں سیکڑوں کے سر نیچے پاﺅں اوپر
کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں
(۵) عوامی شاعری
نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں عوام کے مسائل کو عوامی زبان میں ادا کیا۔ وہ
ہندومسلم سب کے غم و ماتم میں شریک نظر آتے ہیں۔ عید‘ شب برات‘ ہولی‘ دیوالی‘
دسیرہغرض ہر تہوار پر نظم لکھتے ہیں۔ ایک خواجہ معین الدین اجمیری کی تعریف کرتے
ہیں تو دوسری طرف گرو نانک کو بھی نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
اختر ادرینوی کہتے ہیں:
نظیر نے جنتا(عوام) کے سورج سے اپنی زندگی اور شاعری کا
دیا جلایا ہے۔
(۶) منظر نگاری
نظیر کو زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ وہ منظر
نگاری میں بڑا کمال رکھتے ہیں۔ ان کا مطالعہ جزئیات بڑا وسیع ہے۔ جزئیات نگاری میں
وہ بے شک میر انیس کے ہم پلہ ہیں۔
نیاز فتح پوری کہتے ہیں:
نظیر کے کلام کی خصوصیت ان کا مطالعہ جزئیات ہے جس وقت
وہ کسی منظر کی تصویر کھینچتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے ایک ایک زرے کا حساب لے
رہا ہے۔
عکسِ کلام درج ذیل ہے
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہےں ایک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
(۷) ظرافت
نظیر کی طبیعت میں ظرافت کا مادہ بہت نمایاں ہے۔ اس
ظرافت کا اثر ان کے فن مےں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی واقعیت پسندی فطرت کے
خزانے سے انہیں ظرافت کا سرمایہ فراہم کرتی ہے۔
پروفیسر سہیل احمد کہتے ہیں:
نظیر کی ظرافت تنقید سے زیادہ محض انکشاف حقیقت سے پیدا
ہوتی ہے۔
نظیر کے کلام کی ایک جھلک ذیل میں ملاحظہ فرمایے
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
(۸) بے ثباتی دنیا کے نقوش
نظیر تقریباً میر کے ہم عصر تھے۔ اس دور مین شمالی
ہندوستان مختلف جنگجو طاقتوں کی ہوس کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایسے پر آشوب دور میں
بے ثباتی دنیا کا نقش ہرشخص کے دل میں بیٹھا ہوا تھا حتی کہ نظیر جیسا خوش باش اور
مست آدمی بھی اس رنگ سے دامن نہ بچاسکا۔ لیکن نظیر غریب کو ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ
امیر کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے بے ثباتی دنیا کا ذکر چھیڑدیتے ہیں۔
نظیر کی ایک نظمبنجارہ نامہ کا ایک اقتباس ذیل مین درج ہے
کچھ کام نہی آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی بات مین بکھرے گی پھر آن بنے گی جان
نقارے‘ نوبت‘ بان‘ نشان‘ دولت‘ حشمت‘ فوجیں‘ لشکر
کیا مسنہ‘ تکیہ‘ ملک‘ مکان‘ کیا چوکی‘ کرسی‘ تخت‘چھپڑ
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
(۹) قلندرانہ لطف اندوزی
نظیر بنیادی طور پر قلندر تھی۔ روکھی سوکھی کھاکر مست
رہتے۔ ان کی انگلیان حالات کی نبض کو محسوس کرتیں لیکن وہ کسی چیز سے متاثر معلوم
نہیں ہوتے۔ نظیر نے اپنے پر آشوب دور کی تلخ حقیقتوں کو گوارا کرنے کے لئے
قلندرانہ انداز اپنالیا۔ ان کی نظمیں”من موجی“ ”پنجری کا عالم“ ”کوڑی نہ رکھ کفن
کو“ اور ”ہر حال میں خوش“ اس رنگ کی نمائندہ نظمیں ہیں۔مندرجہ بالا نظموں کے اشعار
ذیل میں درج ہیں
ہر آن ہنسی‘ ہر آن خوشی ہر وقت امری ہے بابا
جب عاشق‘ مست فقیر ہوئے پھر کیا دل گیری ہے بابا (من موجی)
دل کی خوشی کی خاطر چکھ ڈال مال دھن کو
گر مرد ہے تو عاشق کوڑی نہ رکھ کفن کو (کوڑی نہ رکھ کفن کو)
افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں (ہر حال میں خوش)
حرفِ آخر
نظیر اکبر آبادی اردو کے ایک منفرد و عظیم شاعر ہیں وہ آزرِ سخن ہیں۔ ڈاکٹر
اعجاز حسین نے ان کے باری میں کہا ہے کہ:
دہلی اور لکھنﺅ کے مرکزوں سے دور رہ کر انہوں
نے اپنی ایک علیحدہ شاہراہ تیار کی جس پر خود چلے اور دوسرا کوئی اور ادھر قدم نہ بڑھا
سکا۔