Mulana Muhammad Ali Johar
Mulana Muhammad Ali Johar
مولانا محمد علی جوہر
حوالہ
پیشِ نظر اقتباس مولانا محمد علی جوہر سے لیا گیا ہے جو ”پروفیسر رشید احمد صدیقی کی کتاب گنجہائے گرانمایہ سے ماخوذ ہے۔
تعارفِ مصنف
پروفیسر رشید احمد صدیقی اردو ادب کی تاریخ میں نہایت
اعلی درجے کے قلم کار ہیں۔ آپ کو اساتذہ الاساتذہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر
صنفِ ادب میں آپ نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا اور اصلاح معاشرہ کے لئے مضامین
تحریر کئے۔ آپ کے بارے میں کہا گیا:
اردو ادب میں رشید احمد صدیقی کی موجودگی خود اردو ادب
کے لئے خوش قسمتی ہے۔
(پروفیسر آل احمد سرور)
تعارف سبق
مولانا محمد علی جوہر مصنف کا تحریر کردہ وہ سوانحی خاکہ ہے جس کے مضمون اور اندازِ
تحریر کی مثال کا اردو زبان و ادب میں ملنا مشکل ہے۔ مقصد کے اعتبار سے یہ ایک
تعزیتی تحریر ہے جو مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر تحریر کی گئی لیکن اس میں
محمد علی کے لئے مصنف کی حقیقی محبت و عقیدت کا عکس ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کی
عظیم شخصیت اور پروفیسر رشید احمدکی وارفتگی و جذباتیت نے اس خاکہ کو اردو ادب کا
دلکش شہپارہ بنادیا ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
اقتباس ۱
ملک و ملت کی جنگ ابھی جاری ہے لیکن نعرئہ جنگ ابھی
خاموش ہے۔ فتح و شکست تو اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ فتح و شکست ہوتی رہے۔ لیکن جنگ
آزما کہاں۔ شہادت کس کو نصیب ہوگی۔ ایسا حسین رضہ کہاں جس کو خود یزید کی تلاش ہو!
آئیے جہاں کل فاتح بیت المقدس نے سر جھکادیا تھا وہاں آج محمد علی کی معراج
بنائیں۔
تشریح
پیشِ نظر اقتباس میں مصنف مولانا محمد علی جوہر سے نہایت
منفرد انداز میں اظہار عقیدت کررہاہے۔ مصنف کہتا ہے کہ مولانا محمد علی کے عہد کی
طرح اس دور میں بھی حق اور باطل کے درمیان کشمکش جاری ہے اور دونوں ایک دوسرے غلبہ
حاصل کرنے لئے لئے کوشاں ہیں۔ اس دور میں اور اس وقت میں فرق صرف اتنا ہے کہ اہلِ
حق باطل کو للکار نہیں رہے۔ ان کے درمیان مصلحت پسندی اور رواداری اس خوف سے پرورش
پارہی ہے کہ کہیں حق کو شکست نہ ہوجائے۔ اب ایسے افراد موجود نہیں ہیں جو باطل کو
للکار کر اسے باطل ثابت کرسکیں۔ مصنف پھرکہتا ہے کہ اگر شکست کا اتنا ہی خوف ہے تو
یہ حقیقت سامنے ہے کہ ایک فریق کو تو شکست کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ
وہ باطل ہی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا کردار ادا کیا جائے اور باطل کے خلاف
اٹھائی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شہادت جیسا عظیم انعام کس کو ملے گا اور کون
اس کا اہل ٹہرے گا۔ پیمانہ فتح و شکست کو نہیں بلکہ اپنے کردار اور اپنی ذمہ
داریوں کو بنانا چاہئے۔ مصنف پھر حضرت حسین رضہ کاذکر کرتا ہے جن کو حق کا پیکر
سمجھا جاتا ہے اور جو باطل کو خود تلاش کرکے اس پر حق ثابت کردے۔ مصنف ایک مرتبہ
پھر مولانا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کو حضرت حسین رضہ کا پیروکار کہتا ہے
اور قائین سے ان کا احترام کرنے کی استدعا کرتا ہے
بقول شاعر
ہم کو خود شوقِ شہادت ہے گواہی کیسی
فیصلہ کر بھی چکو مجرمِ اقراری کا
اقتباس۲
بعض لوگ کہتے ہیں، کہ وہ بڑے تھے، لیکن ان کا کوئی
کارنامہ نہیں، یہ تنگ دلوں اور تنگ نظروں کا فیصلہ ہے، ہماری قومی زندگی میں آج
کتنے دھارے بہہ رہے ہیں ، کتنے چشمے ابل رہے ہیں کتنے عزائم بیدار اور کتنی روحیں
دارورسن کی طلبگار ہیں، یہ کس کا فیضان ہے؟
تشریح
پیشِ نظر اقتباس میں مصنف مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت
پر بعض افراد کی تنقید کا جواب پیش کررہے ہیں۔ کہتا ہے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے
کہ مولانا محمد علی جوہر نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا اور لوگ بلاوجہ انہیں
مشہور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے مصنف نہایت عقیدت مندانہ اور
مدبرانہ انداز میں اپنی بات پیس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر نے
نہ صرف اپنی زندگی میں ہمیشہ باطل کو للکارہ بلکہ اس سوتی ہوئی قوم کو نیا جذبہ اور
نئی آرزوئیں دیں۔ لوگوں کے دلوں میں حق کے لئے لڑنے کا جذبہ بیدارکیا اور اس قسم
کی تحریکوں کی ہمیشہ حمایت کی۔ اس طرح ان کی شخصیت سے متاثر لوگوں کی حوصلہ افزائی
ہوئی اور آج ان کے مرنے کے بعدبھی یہ لوگ حق پر قائم ہیں اور اپنے مقصد کے لئے
جدوجہد کررہے ہیں۔ ان جذبوں کی روایت ہمیشہ مولانا محمد علی جوہر ہی سے ملی۔ ان
تمام خدمات کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے تو یہ لوگ یقینا
کم نظر ہیں اور دوسروں کی خوشیوں میں خوش نہیں ہوسکتے
بقول شاعر
کتنے ہی لوگ صاحب احساس ہوگئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اقتباس۲
مردِ غازی کے کارناموں کا اندازہ مقبوضات کی وسعت، مالِ
غنیمت کی فراوانی، جشن وجلوس کی ہمہمی و طرب انگیزی، برگستواں کی زینت تمغہ اور
اسلحے کی چمک اور جھنکار سے نہیںکیا جاتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی تلوار، بکھری ہوئی زرہ،
بہتے ہوئے لہو، دہکتی ہوئی روح اور دمکتے ہوئے چہرے - ڈوبتے ہوئے سورج سے۔
تشریح
رشید احمد صدیقی مولانا کے جراتِ کردار کو سراہتے ہوئے
کہتے ہیں کہ بہادری اور جواں مردی انتہائی اعلٰی شخصی صفات ہیں۔ قدرت یہ اوصاف گنے
چنے لوگوں کو عطا کرتی ہے اور انکی پہچان اس بات سے نہیں ہوتی کہ انہوں نے بطور
غازی کے دشمن کا کتنا علاقہ فتح کیا اور کس قدر مالِ غنیمت ہاتھ آیا اور نہ انکی
شجاعت و بہادری ناپنے کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں نے ان کی فتح کا جشن کس طرح
منایا اور ان کے قومی لباس پر کتنے شجاعت کے تمغے سجے تھے۔ نہ ان کی عظمت و
سربلندی کو اس بات سے ناپا جاتا ہے کہ ان کی تلوار کی کاٹ کس قدر تیز تھی۔ یہ سب
بہادری کے عارضی اور نمائشی مظاہر ہیں۔ سرفروشی اور بہادری کا اصل معیار تو یہ
ہوتا ہے کہ مجاہد کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ جائے۔ وہ مردانہ وار لڑتے ہوئے اپنے سینے
پر ہر وار روکے اور زخمی ہونے کے باوجود اس کا چہرہ اس اطمینان کا آئینہ دار ہو کہ
کہ اس نے بہادری سے لڑتے لڑتے جان دی۔ یوں اسکی جان ایک ایسا سورج نظر آتی جو
دوسروں کو روشنی دے کر ڈوب رہا ہو۔ مولانا محمد علی جوہر بھی ایک ایسے مجاہد تھے
جنہوں نے حصولِ آزادی کی خاطر اپنی جان قربان کردی مگر حریت پسندی پر حرف نہ آنے
دیا۔ سرفروشی اور شجاعت و حوصلے کی بدولت خود شہادت ان پر ناز کرتی ہے۔ بقول فیض
جس رھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
اقتباس ۴
انسان کے دل میں عجیب عجیب خیالات آتے رہتے ہیں۔ انھی
خیالات کو کبھی الہام قرار دیا جاتا ہے اور کبھی یہ مہمل بھی ہوتے ہیں۔ لیکن خیال
کے عجیب تر ہونے کے معنی ہمیشہمہمل ہونے کے تو نہیں ہوتے۔
تشریح
رشید صاحب مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولانا اس وقت ہم سے جدا ہوئے ہیں جب ہمیں ان کی سخت ضرورت تھے۔ کیونکہ ابھی آزاد۔ وطن کا کارواں اپنی منزل تک نہیں پہنچا۔ اس وقت مصنف کے ذہن میں کچھ اس طرح کے خیالات آرہے ہیں کہ اگر مولانا کے بجائے موت کسی اور سیاسی لیڈر کو مانگتی تو ہندوستان کا بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر بھی دیا جاسکتا تھا کہ شائد اس کا اس قدر ماتم نہ ہوتا، جس قدر مولانا محمد علی جوہر کی موت پر ہوا۔ رشید صاحب کہتے ہیں کہ انسانی فکر کو پابند نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت مصنف کے ذہن میں جو خیال آرہا ہے وہ غیرارادی نہیں ہے۔ ان کو احساس ہے کہ ان کے ذہن میں ابھرنے والا نیا خیال انوکھا اور غیر متوقع ہے لیکن ذہن میں پیدا ہونے والاہر نیا خیال بے کار اور غیر اہم تو نہیں ہوتا۔ دراصل رشید احمدصدیقی یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں کہ انگریز کے سامنے ڈٹ جانے والے واحد اور مثالی رہنما صرف اور صرف مولانا محمد علی جوہر تھے اور کوئی نہیں تھے۔ یوں ان کی موت ایک عظےم تاریخی سانحہ ہے جسکی مثال پورے برصغیر میں کہیں نہیں ملے گی۔