Ghazal And Shayari Of Khawja Haider Ali
Ghazal And Shayari Of Khawja Haider Ali
Khawja Haider Ali
خواجہ حیدر علی آتش غزل 1
حوالہ
پیشِ نظر شعر خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
خواجہ حیدر علی آتشاردو غزل گوئی کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کی بدولت دبستانِ لکھنو کا آغاز ہوا۔ آتش کا تصوف سے عملی رشتہ تھا جس کا عکس اُن کے کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے کلام میں مرصع سازی جا بجا ملتی ہے اور خارجی کیفیات سے ہٹ کر حسنِ فکر بھی نمایاں ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش کے اشعارمنتخب ہیں اور اُن کے کلام میں زبان و بیان کی کشش ہے۔ بقول ڈاکٹر ابواللّیث صدیقی:
زبان اور محاوروں کا لطف اٹھانا ہو تو آتش کے کلام کو پڑھنا چاہئے۔
شعرنمبر ۱
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی قصیدہ خوانی کر رہا ہے اور اس کے حسن و جمال کی برتری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم کو تمہارے حسن اور اپنی محبت پر ناز ہے۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تم اس کائنات کی حسین ترین شے ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت شے گلاب کے پھول کو سمجھا جاتا ہے جس کی عاشق بلبل ہے۔ اگر ہم کو موقع ملتا تو ہم حسن کا مقابلہ کرواتے جس میں ایک طرف تم اور دوسری طرف گلاب ہوتا۔ گلاب کے پھول سے عشق کرنے والی بلبل ہے جو اس کی محبت میں نہایت بے چین اور مضطرب رہتی ہے اور اس کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے جبکہ تمھارے چاہنے والے ہم ہیں۔ ہم بلبل سے ہمکلام ہو کر اس دنیا پر یہ ثابت کر دیتے کہ تمہارا حسن گلاب سے بھی بڑھ کر ہے اور اس پھول کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلبل کو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی کہ حسن و نزاکت میں ہمارا محبوب اُس کے محبوب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہمارا عاشق حسن و دلکشی کا مرقع‘ نزاکت و لطافت کا مجموعہ اور مسرت کن خوشبوﺅں کا خاصہ ہے جس کا مقابلہ کسی طرح بھی اِس بے وقعت پھول سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعر میں شاعر نے مبالغے کی صفت استعمال کی ہے
مماثل شعر
ہوئی گل پر فدا نادان بلبل
کہاں گل اور کہاں وہ غیرتِ گل
شعر نمبر ۲
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مرکزی خیال
شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کے سامنے اپنی آرزﺅں اور خواہشآت کا اظہار خود کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ قاصد محبوب کے احساسات اور کیفیات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مجھے دردِ دل سنانے کے لئے کوئی پیغام بر نہیں ملا، نامہ �¿ التفات لے جانے کے لئے قاصد نہ ملا تو بہترین ہوا۔ اے میرے محبوب ہم کسی غیر کے ہاتھ سے تجھے کیا بھےجتے اگرچہ کہ اس سے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جاتا جو کہ اب تک میرے سامنے اظہار کے لئے بے چین تھا مگر اس طرح میری دلی کیفیات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہ ہو سکتی۔
اصل میں شاعر کسی قاصد کی تلاش میں سرگرداں تھا تاکہ محبوب تک اپنے دل کا حال پہنچا سکے لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے کوئی شخص ایسا نہ ملا جو کہ اس کے جزبات و احساسات کی تفصیل محبوب تک پہنچائے تو اس وقت عاشق نے اپنے آپ کو اس طرح تسلی دی کہ چلو اچھا ہوا کہ قاصد نہ ملا۔ کیونکہ محبوب کے آگے کسی غیر سے اپنی آرزﺅں اور تمناﺅں کو پیش کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا
شعر ۳
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
مرکزی خیال
محبت و عشق کی حکمرانی اس پوری کائنات پر قائم ہے اور عشق کے بغیر اس زندگی کا مفہوم ادھورا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ یہ چاند و سورج و سیارے ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ایک حالت میں سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لگتا ہے یہ بھی میری طرح کسی سچے اور حقیقی محبوب کی تلاش میں ہیں۔ میری حالت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ میں ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتا ہوں۔ مجھے بھی ایک عاشقِ حقیقی کی تلاش ہے اور میں اس کے لئے جستجو کرتا رہتا ہوں۔ ان کیفیات کے ذریعے شاعر یہ حقیقت بیان کررہا ہے کہ محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے جس کے بغیر یہ کائنات ادھوری ہے اور جس کو ہٹا کر اس حیاتِ فانی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے
شعر نمبر ۴
جو دیکھتے تری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد، آرزو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کا تمام حسن اس کی زلفوں کو قرار دے رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پابندی سلاسل سے گھبراتے ہیں اور زنجیر کی چھنک سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ تیری زلفوں کی زنجیر کا لطف جانتے تو وہ یقیناً اس بات کی آرزو کرتے کہ کاش وہ زلفوں کی زنجیروں میں اُلجھ کر قید ہو جائیں۔ انہیں آزادی سے یہ پابندی پسند آتی۔
شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو بڑا ہی حسین ہے، تیری زلف سیاہ اور دراز ہے۔ جب تو کبھی اپنے گیسوﺅں کو چوٹی کی شکل میں گوندھ لیتا ہے اور وہ زنجیر کی شکل اختیار کڑ لیتے ہیں تو اس وقت تو اور بھی زیادہ حسین دکھائی دینے لگیا ہے۔ ایسے میں عام لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو تیرے حسن و جمال کو دیکھ کر سب تیری محبت میں مبتلا ہو جائیں اور خواہش کریں کہ کاش تو انہیں بھی اپنی زنجیرِ زلف میں اسیر کر لے
شعر نمبر ۵
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
تشریح
بد نصیبی عاشق کا مقدر ہوتی ہے۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ کوئی خواہش اور آرزو پوری نہ ہو لیکن عاشقی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آرزو خواہشات کے برعکس ہو۔ یہ بد نصیبی کی انتہا ہے۔ شاعر کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ میری بد نصیبی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جو آرزو کرتا ہوں، جو دعا کرتا ہوں اس کے برعکس کام ہوتا ہے۔ اگر مےن گرمی کی شدت کے سبب بارش کی دعا کروں تو بجائے بارش کے آگ برسنے لگے یعنی اور زیادہ گرمی بڑھ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ میرا مقدر اس قدر برگشتہ ہو گیا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں ہمیشہ اس کا الٹا ہی ہوتا ہے
مماثل شعر
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ Khawja haider Ali Ghazal - 2
خواجہ حیدر علی آتش غزل 2
شعر نمبر ۱
ہوائے دور مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش امید نو کا ایک اچھوتا سا انداز لئے ہوئے لوگوں کو نویدِ سحر کی خبر سنا رہے ہیں۔
تشریح
آتش نے رومانی اشعار کے علاوہ حالات کے پیشِ نظر بڑے امید افزاءاشعار بھی کہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلسل ناکامیوں سے گھبراتے دلوں کو ناامید ہونا کفر ہے۔ سارے مصائب کی رات کٹ جاتی ہے اور خوشیوں کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ خزاں دم توڑ رہی ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔ تیرگی کے دن کٹ گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو امید افزاء کی نوید سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصائب کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بہارےں ہمارے قدم چومیں گی۔ کیونکہ خوشگوار ہوائیں موسمِ بہار کی آمد کا پتہ دے رہی ہیں۔ اب ہر طرف تازگی اور عیش و عشرت کا زمانہ آنے والا ہے
شعر۲
عَدَم کے کُوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر، نہ کوئی دیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعرمیں شاعر تمام ذی شعور انسانوں کو سفرِآخرت کی تیاری کی تلقین کر رہا ہے۔
تشریح
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے دین کی روشنی میں فلسفہ زندگانی بیان کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک ہر انسان کو اصل و ابدی منزل کی جانب روانگی کے لئے تیاری کرنی چاہئے اور اِس زندگی میں لمحات کی قدر کرتے ہوئے ہر لمحے حصولِ آخرت کی فکرمیں مگن رہنا چاہئے۔ انسان کی زندگی مطلقِ کل کی رضا و مشّیت سے مشروط ہے۔ پُرسکون دائمی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی رضا کی مداخلت نہ کرے اور اِس زندگی کو اِس طرح بسر کرے کہ اُس کے ہر عمل سے فکرِ آخرت ظاہر ہو۔ یہ زندگی انسانی وجود سے کچھ قربانی مانگتی ہے۔ وہ قربانی صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جاری و ساری نظامِ قدرت سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے ہر فعل کو تشکیل دے۔ کیونکہ موت مطلقِ کُل کی مرضی سے آتی ہے۔ جب زندگی کسی وجود کو اپنے رحم اور اپنی ہمدردی سے محروم کر دیتی ہے تو اُسے موت کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ موت اور زندگی کے درمیان کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہی موت ہمیں اِس زندگی کا احترام سکھاتی ہے۔ اِس لئے ہم پر لازم ہے اِس چند روزہ زندگی کوغنیمت جانیں اور آخرت کے سفر کی تیاری اِس بھرپور طریقے سے کریں کہ دورانِ سفر کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ ایک مرتبہ اِس سفر پر روانہ ہونے والے وجود کے لئے واپسی کے تمام دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر اُسے اپنی نامکمل تیاری کو مکمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا
مماثل شعر
آخرت میں اعمال نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر
شعر نمبر ۳
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسائش
عناں گستہ و بے اختیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
شاعر کہتا ہے انسانی زندگی خواہشات سے پُر ہے اور عیش اس کی فطرت میں ہے۔
تشریح
آتش فرماتے ہیں کہ زندگی بے حد مختصر ہے، بڑی تیز رفتار ہے اور پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہے۔ آدمی دنیا کی آسائشوں، راحتوں اور رعناﺅں کسے بھرپور طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ وہ وقت کی تیز رفتاری کے ہاتھوں مجبور ہے۔ کسی کا وقت پر کوئی اختیار نہیں اور وہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے۔ وہ حال، مستقبل سے بے پرواہ دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت تیز رفتاری سے گزرتا چلا جائے اور آدمی کو اس دنیا میں کچھ کرنے کا زیادہ موقع نہیں دے گا۔ اسی لئے چاہئے کہ جتناوقت ملے اسے غنیمت جان کر آئندہ پیش آنے والے سفر کے لئے تیار رہے۔ لیکن انسان اسبابِ جہالت کو بڑھاتا ہی رہتا ہے۔ حالانکہ اس کو جس سفر پر روانہ ہونا ہے وہاں وہ تمام ضروریات سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور سامان تو کیا وہ ہر چیز لے جانے کے سلسلے میں بے اختیارہے
مماثل شعر
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں
شعر نمبر ۴
نہ بدرقہ ہے، نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش سفر آخرت کو خطرات سے معمور قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سفر کو وہی آسانی سے پار کر سکے گا جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ نہ کوئی شجر سایہ دار ، نہ کوئی ابر کا ٹکڑا، نہ کوئی ساتھی اور دوست ہے صرف اللہ کا سہارا ہے۔ اگر اس کی رحمت کی نظر ہو جائے تو نزع سے قبر اور قبر سے لے کر میدانِ حشر تک معاملہ آسان ہے اور کوئی مددگار اور ساتھی نہیں ہے۔ وہ آل و اولاد، مال و دولت، جن کو ہم رفیقِ جہاں سمجھتے ہیں وہ سب ختم ہو گئے صرف اللہ کی رحمت سے بیڑہ پار ہے۔ سفرِآخرت ایک ایسا سفر ہے جس کو تنہا آدمی کو خود طے کرنا ہے، کوئی اس کے ساتھ محافظ نہیں ہوتا، نہ کوئی دوست ساتھ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے کٹ جائے۔ اس سفر کو آسان کرنے کی صورت خدا کی عنایت اور مہربانی ہے جو کہ صرف اُسی صورت مل سکے گی جب کہ ہم اُس کے احکامات کی پیروی کر کے اُسے خوش رکھیں
شعر۵
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
آتش عزم و ہمت کا درس دیتے ہوئے یہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ منزل کے حصول کے لئے سفر کا آغاز ہی اہم ترین ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی ہمت اور حوصلہ بلندکر رہے ہیں۔ شاعر کہتا کے کسی بھی مشکل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دورانِ سفر ہم کن کن مصائب و آلام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں گے؟ اور کیا ہم اپنی منزل اور مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اِس طرح کے خیالات اگر ذہن میں آ جائیں تو انسان آغاز ہی میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ شاعر انسانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہا ہے کہ ہمیں ذاتِ مطلق پر توکل و بھروسہ رکھتے ہوئے اور اُس ایک ذات سے امید لگا کر جانب منزل سفر کا آغاز کر دینا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے اور اُس کا آغاز کر دیتا ہے تو خود بخود اُس کے لئے راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ آخر کار اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔سفر کے دوران اُسے ہزاروں وفادار ہم سفر مل جاتے ہیں اور اُس کی ہر ممکن طریقوں سے مدد کرتے ہیں۔ انسان کے لئے ایسے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جس کی بدولت وہ تمام مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتا ہوا اپنی منزل پر فتح و کامیابی کا جھنڈا گاڑھ دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بغیر کسی خوف و پریشانی کے اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز کر دیں اور خدائے بزرگ و برتر پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے تمام رکاوٹوں کا ادراک کریں۔ انشاءاللہ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی
مماثل شعر
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
شعر نمبر ۶
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے، دشمن ہزار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
شاعر اس شعر میں سبق دے رہا ہے کہ اگر منزل کی سچی لگن دل میں موجود ہو تو مصائب کے طوفان بھی ہمیں منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہمرِ مرداں اور خدا کی عنایت و مہربانی اگر ہو تو کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ چاہے راہ میں سیکڑوں دشمن اور راہ زن، مصائب و آلام ہمیں گھیر لیں۔ مگر ہمیں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہے تو وہ ہماری دستگیری کرے گا، نگہبانی فرمائے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں پر انسان کام نہیں آئیں گے بلکہ صرف اللہ کی رحمت کا سایہ ہم پر ہو گا تو ہم اپنا مقصد پا لیں گے۔
شعر نمبر ۷
تھکیں جو پاﺅں تو چل سر کے بل نہ ٹھیر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہے
تشریح
اس شعر میں مزید اسی مضمون کے شاعر نے تشریح کی ہے۔ کہتا ہے کہ جب سفر کا آغاز کر دیا، خدا کی عنایات و نوازشات پر نظر جمائے رکھی تو راہ کی دشوارویوں سے ڈرنا، گھبرانا کیا؟ اگر چلتے چلتے پاﺅں تھک جائیں تو رک جانا یا ٹہرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تمام دشواریان اور تکالیف تو راستے ہی میں ہوتی ہےں۔ منزل پر پہنچ کر تو آرام و سکون میسر آجاتا ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کے کرے راستے کو جلد از جلد طے کر لینا چاہئے۔ تھک کر بیٹھ رہنے سے دشواریاں کم نہیں ہوں گی۔ مطلب یہ کہ حصولِ مقصد میں دشواریوں کا سامنا یقینی ہے کیونکہ بغیر دشواریوں کے منزلِ مقصود نہیں ملتی
خواجہ حیدر علی آتش غزل 1
حوالہ
پیشِ نظر شعر خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
خواجہ حیدر علی آتشاردو غزل گوئی کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کی بدولت دبستانِ لکھنو کا آغاز ہوا۔ آتش کا تصوف سے عملی رشتہ تھا جس کا عکس اُن کے کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے کلام میں مرصع سازی جا بجا ملتی ہے اور خارجی کیفیات سے ہٹ کر حسنِ فکر بھی نمایاں ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش کے اشعارمنتخب ہیں اور اُن کے کلام میں زبان و بیان کی کشش ہے۔ بقول ڈاکٹر ابواللّیث صدیقی:
زبان اور محاوروں کا لطف اٹھانا ہو تو آتش کے کلام کو پڑھنا چاہئے۔
شعرنمبر ۱
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی قصیدہ خوانی کر رہا ہے اور اس کے حسن و جمال کی برتری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم کو تمہارے حسن اور اپنی محبت پر ناز ہے۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تم اس کائنات کی حسین ترین شے ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت شے گلاب کے پھول کو سمجھا جاتا ہے جس کی عاشق بلبل ہے۔ اگر ہم کو موقع ملتا تو ہم حسن کا مقابلہ کرواتے جس میں ایک طرف تم اور دوسری طرف گلاب ہوتا۔ گلاب کے پھول سے عشق کرنے والی بلبل ہے جو اس کی محبت میں نہایت بے چین اور مضطرب رہتی ہے اور اس کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے جبکہ تمھارے چاہنے والے ہم ہیں۔ ہم بلبل سے ہمکلام ہو کر اس دنیا پر یہ ثابت کر دیتے کہ تمہارا حسن گلاب سے بھی بڑھ کر ہے اور اس پھول کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلبل کو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی کہ حسن و نزاکت میں ہمارا محبوب اُس کے محبوب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہمارا عاشق حسن و دلکشی کا مرقع‘ نزاکت و لطافت کا مجموعہ اور مسرت کن خوشبوﺅں کا خاصہ ہے جس کا مقابلہ کسی طرح بھی اِس بے وقعت پھول سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعر میں شاعر نے مبالغے کی صفت استعمال کی ہے
مماثل شعر
ہوئی گل پر فدا نادان بلبل
کہاں گل اور کہاں وہ غیرتِ گل
شعر نمبر ۲
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مرکزی خیال
شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کے سامنے اپنی آرزﺅں اور خواہشآت کا اظہار خود کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ قاصد محبوب کے احساسات اور کیفیات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مجھے دردِ دل سنانے کے لئے کوئی پیغام بر نہیں ملا، نامہ �¿ التفات لے جانے کے لئے قاصد نہ ملا تو بہترین ہوا۔ اے میرے محبوب ہم کسی غیر کے ہاتھ سے تجھے کیا بھےجتے اگرچہ کہ اس سے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جاتا جو کہ اب تک میرے سامنے اظہار کے لئے بے چین تھا مگر اس طرح میری دلی کیفیات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہ ہو سکتی۔
اصل میں شاعر کسی قاصد کی تلاش میں سرگرداں تھا تاکہ محبوب تک اپنے دل کا حال پہنچا سکے لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے کوئی شخص ایسا نہ ملا جو کہ اس کے جزبات و احساسات کی تفصیل محبوب تک پہنچائے تو اس وقت عاشق نے اپنے آپ کو اس طرح تسلی دی کہ چلو اچھا ہوا کہ قاصد نہ ملا۔ کیونکہ محبوب کے آگے کسی غیر سے اپنی آرزﺅں اور تمناﺅں کو پیش کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا
شعر ۳
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
مرکزی خیال
محبت و عشق کی حکمرانی اس پوری کائنات پر قائم ہے اور عشق کے بغیر اس زندگی کا مفہوم ادھورا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ یہ چاند و سورج و سیارے ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ایک حالت میں سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لگتا ہے یہ بھی میری طرح کسی سچے اور حقیقی محبوب کی تلاش میں ہیں۔ میری حالت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ میں ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتا ہوں۔ مجھے بھی ایک عاشقِ حقیقی کی تلاش ہے اور میں اس کے لئے جستجو کرتا رہتا ہوں۔ ان کیفیات کے ذریعے شاعر یہ حقیقت بیان کررہا ہے کہ محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے جس کے بغیر یہ کائنات ادھوری ہے اور جس کو ہٹا کر اس حیاتِ فانی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے
شعر نمبر ۴
جو دیکھتے تری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد، آرزو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کا تمام حسن اس کی زلفوں کو قرار دے رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پابندی سلاسل سے گھبراتے ہیں اور زنجیر کی چھنک سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ تیری زلفوں کی زنجیر کا لطف جانتے تو وہ یقیناً اس بات کی آرزو کرتے کہ کاش وہ زلفوں کی زنجیروں میں اُلجھ کر قید ہو جائیں۔ انہیں آزادی سے یہ پابندی پسند آتی۔
شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو بڑا ہی حسین ہے، تیری زلف سیاہ اور دراز ہے۔ جب تو کبھی اپنے گیسوﺅں کو چوٹی کی شکل میں گوندھ لیتا ہے اور وہ زنجیر کی شکل اختیار کڑ لیتے ہیں تو اس وقت تو اور بھی زیادہ حسین دکھائی دینے لگیا ہے۔ ایسے میں عام لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو تیرے حسن و جمال کو دیکھ کر سب تیری محبت میں مبتلا ہو جائیں اور خواہش کریں کہ کاش تو انہیں بھی اپنی زنجیرِ زلف میں اسیر کر لے
شعر نمبر ۵
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
تشریح
بد نصیبی عاشق کا مقدر ہوتی ہے۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ کوئی خواہش اور آرزو پوری نہ ہو لیکن عاشقی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آرزو خواہشات کے برعکس ہو۔ یہ بد نصیبی کی انتہا ہے۔ شاعر کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ میری بد نصیبی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جو آرزو کرتا ہوں، جو دعا کرتا ہوں اس کے برعکس کام ہوتا ہے۔ اگر مےن گرمی کی شدت کے سبب بارش کی دعا کروں تو بجائے بارش کے آگ برسنے لگے یعنی اور زیادہ گرمی بڑھ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ میرا مقدر اس قدر برگشتہ ہو گیا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں ہمیشہ اس کا الٹا ہی ہوتا ہے
مماثل شعر
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ Khawja haider Ali Ghazal - 2
خواجہ حیدر علی آتش غزل 2
شعر نمبر ۱
ہوائے دور مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش امید نو کا ایک اچھوتا سا انداز لئے ہوئے لوگوں کو نویدِ سحر کی خبر سنا رہے ہیں۔
تشریح
آتش نے رومانی اشعار کے علاوہ حالات کے پیشِ نظر بڑے امید افزاءاشعار بھی کہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلسل ناکامیوں سے گھبراتے دلوں کو ناامید ہونا کفر ہے۔ سارے مصائب کی رات کٹ جاتی ہے اور خوشیوں کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ خزاں دم توڑ رہی ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔ تیرگی کے دن کٹ گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو امید افزاء کی نوید سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصائب کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بہارےں ہمارے قدم چومیں گی۔ کیونکہ خوشگوار ہوائیں موسمِ بہار کی آمد کا پتہ دے رہی ہیں۔ اب ہر طرف تازگی اور عیش و عشرت کا زمانہ آنے والا ہے
شعر۲
عَدَم کے کُوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر، نہ کوئی دیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعرمیں شاعر تمام ذی شعور انسانوں کو سفرِآخرت کی تیاری کی تلقین کر رہا ہے۔
تشریح
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے دین کی روشنی میں فلسفہ زندگانی بیان کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک ہر انسان کو اصل و ابدی منزل کی جانب روانگی کے لئے تیاری کرنی چاہئے اور اِس زندگی میں لمحات کی قدر کرتے ہوئے ہر لمحے حصولِ آخرت کی فکرمیں مگن رہنا چاہئے۔ انسان کی زندگی مطلقِ کل کی رضا و مشّیت سے مشروط ہے۔ پُرسکون دائمی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی رضا کی مداخلت نہ کرے اور اِس زندگی کو اِس طرح بسر کرے کہ اُس کے ہر عمل سے فکرِ آخرت ظاہر ہو۔ یہ زندگی انسانی وجود سے کچھ قربانی مانگتی ہے۔ وہ قربانی صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جاری و ساری نظامِ قدرت سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے ہر فعل کو تشکیل دے۔ کیونکہ موت مطلقِ کُل کی مرضی سے آتی ہے۔ جب زندگی کسی وجود کو اپنے رحم اور اپنی ہمدردی سے محروم کر دیتی ہے تو اُسے موت کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ موت اور زندگی کے درمیان کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہی موت ہمیں اِس زندگی کا احترام سکھاتی ہے۔ اِس لئے ہم پر لازم ہے اِس چند روزہ زندگی کوغنیمت جانیں اور آخرت کے سفر کی تیاری اِس بھرپور طریقے سے کریں کہ دورانِ سفر کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ ایک مرتبہ اِس سفر پر روانہ ہونے والے وجود کے لئے واپسی کے تمام دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر اُسے اپنی نامکمل تیاری کو مکمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا
مماثل شعر
آخرت میں اعمال نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر
شعر نمبر ۳
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسائش
عناں گستہ و بے اختیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
شاعر کہتا ہے انسانی زندگی خواہشات سے پُر ہے اور عیش اس کی فطرت میں ہے۔
تشریح
آتش فرماتے ہیں کہ زندگی بے حد مختصر ہے، بڑی تیز رفتار ہے اور پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہے۔ آدمی دنیا کی آسائشوں، راحتوں اور رعناﺅں کسے بھرپور طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ وہ وقت کی تیز رفتاری کے ہاتھوں مجبور ہے۔ کسی کا وقت پر کوئی اختیار نہیں اور وہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے۔ وہ حال، مستقبل سے بے پرواہ دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت تیز رفتاری سے گزرتا چلا جائے اور آدمی کو اس دنیا میں کچھ کرنے کا زیادہ موقع نہیں دے گا۔ اسی لئے چاہئے کہ جتناوقت ملے اسے غنیمت جان کر آئندہ پیش آنے والے سفر کے لئے تیار رہے۔ لیکن انسان اسبابِ جہالت کو بڑھاتا ہی رہتا ہے۔ حالانکہ اس کو جس سفر پر روانہ ہونا ہے وہاں وہ تمام ضروریات سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور سامان تو کیا وہ ہر چیز لے جانے کے سلسلے میں بے اختیارہے
مماثل شعر
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں
شعر نمبر ۴
نہ بدرقہ ہے، نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش سفر آخرت کو خطرات سے معمور قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سفر کو وہی آسانی سے پار کر سکے گا جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ نہ کوئی شجر سایہ دار ، نہ کوئی ابر کا ٹکڑا، نہ کوئی ساتھی اور دوست ہے صرف اللہ کا سہارا ہے۔ اگر اس کی رحمت کی نظر ہو جائے تو نزع سے قبر اور قبر سے لے کر میدانِ حشر تک معاملہ آسان ہے اور کوئی مددگار اور ساتھی نہیں ہے۔ وہ آل و اولاد، مال و دولت، جن کو ہم رفیقِ جہاں سمجھتے ہیں وہ سب ختم ہو گئے صرف اللہ کی رحمت سے بیڑہ پار ہے۔ سفرِآخرت ایک ایسا سفر ہے جس کو تنہا آدمی کو خود طے کرنا ہے، کوئی اس کے ساتھ محافظ نہیں ہوتا، نہ کوئی دوست ساتھ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے کٹ جائے۔ اس سفر کو آسان کرنے کی صورت خدا کی عنایت اور مہربانی ہے جو کہ صرف اُسی صورت مل سکے گی جب کہ ہم اُس کے احکامات کی پیروی کر کے اُسے خوش رکھیں
شعر۵
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
آتش عزم و ہمت کا درس دیتے ہوئے یہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ منزل کے حصول کے لئے سفر کا آغاز ہی اہم ترین ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی ہمت اور حوصلہ بلندکر رہے ہیں۔ شاعر کہتا کے کسی بھی مشکل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دورانِ سفر ہم کن کن مصائب و آلام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں گے؟ اور کیا ہم اپنی منزل اور مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اِس طرح کے خیالات اگر ذہن میں آ جائیں تو انسان آغاز ہی میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ شاعر انسانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہا ہے کہ ہمیں ذاتِ مطلق پر توکل و بھروسہ رکھتے ہوئے اور اُس ایک ذات سے امید لگا کر جانب منزل سفر کا آغاز کر دینا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے اور اُس کا آغاز کر دیتا ہے تو خود بخود اُس کے لئے راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ آخر کار اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔سفر کے دوران اُسے ہزاروں وفادار ہم سفر مل جاتے ہیں اور اُس کی ہر ممکن طریقوں سے مدد کرتے ہیں۔ انسان کے لئے ایسے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جس کی بدولت وہ تمام مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتا ہوا اپنی منزل پر فتح و کامیابی کا جھنڈا گاڑھ دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بغیر کسی خوف و پریشانی کے اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز کر دیں اور خدائے بزرگ و برتر پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے تمام رکاوٹوں کا ادراک کریں۔ انشاءاللہ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی
مماثل شعر
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
شعر نمبر ۶
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے، دشمن ہزار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
شاعر اس شعر میں سبق دے رہا ہے کہ اگر منزل کی سچی لگن دل میں موجود ہو تو مصائب کے طوفان بھی ہمیں منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہمرِ مرداں اور خدا کی عنایت و مہربانی اگر ہو تو کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ چاہے راہ میں سیکڑوں دشمن اور راہ زن، مصائب و آلام ہمیں گھیر لیں۔ مگر ہمیں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہے تو وہ ہماری دستگیری کرے گا، نگہبانی فرمائے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں پر انسان کام نہیں آئیں گے بلکہ صرف اللہ کی رحمت کا سایہ ہم پر ہو گا تو ہم اپنا مقصد پا لیں گے۔
شعر نمبر ۷
تھکیں جو پاﺅں تو چل سر کے بل نہ ٹھیر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہے
تشریح
اس شعر میں مزید اسی مضمون کے شاعر نے تشریح کی ہے۔ کہتا ہے کہ جب سفر کا آغاز کر دیا، خدا کی عنایات و نوازشات پر نظر جمائے رکھی تو راہ کی دشوارویوں سے ڈرنا، گھبرانا کیا؟ اگر چلتے چلتے پاﺅں تھک جائیں تو رک جانا یا ٹہرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تمام دشواریان اور تکالیف تو راستے ہی میں ہوتی ہےں۔ منزل پر پہنچ کر تو آرام و سکون میسر آجاتا ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کے کرے راستے کو جلد از جلد طے کر لینا چاہئے۔ تھک کر بیٹھ رہنے سے دشواریاں کم نہیں ہوں گی۔ مطلب یہ کہ حصولِ مقصد میں دشواریوں کا سامنا یقینی ہے کیونکہ بغیر دشواریوں کے منزلِ مقصود نہیں ملتی