Dr. Syed Abdullah

Dr. Syed Abdullah

Dr. Syed Abdullah


ڈاکٹر سید عبداللہ

تعارف

ہزارہ جیسے پسماندہ علاقے کے ایک دوردراز پہاڑی گاوں میں پیدا ہونے والا ایک بے وسیلہ اور بے سہارا نوجوان مالی مشکلات کی سختیاں سہتا اور قدم قدم پر تلخی ایام کا مقابلہ کرتا بالاخر کامیابی منزل پر پہنچا۔ اپنی اعلی تعلیمی قابلیت اور قابل تقلید علمی و ادبی شہرت کے بل بوتے پر یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ثمرہ تھا سید عبداللہ کی خداداد لیاقت اور مسلسل محنت و مطالعہ کا۔ ان کی طبیعت میں تحمل و بردباری اور چیونٹی کی طرح اپنی دھن میں پوری تندہی سے کام میں جتے رہنے کا جوہر ہی ان کی کامیابی و سرفرازی کا ضامن بنا۔ یونیورسٹی لائبریری میں بحیثیت ریسرچ اسکالر ان کا قیام ان کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنا۔ سالہا سال تک قلمی کتابوں کی ورق گردانی نے ان میں برداشت اور حوصلہ مندی کے جوہر کو مزید نکھار بخشا۔ انہیں یہ راز ہاتھ آگیا کہ متواتر مطالعہ اور کتب بینی ہی سے علمی گہرائی اور فکری بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں مگر ان کی تین حیثیتیں سب سے نمایاں ہیں۔ وہ ایک بامور محقق، متوازن نقاد اور ہردلعزیز معلم تھے۔ تحقیقی میدان میں وہ حافظ شیرانی اور ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی روایت کے امین تھے۔ تنقیدی شعبے میں ان کا مسلک معتدل تھا۔ وہ مغربی اور مشرقی ادب اور تنقیدی روایات سے آگاہی رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ ان کا عمر بھر کا ساتھی رہا۔ ان کا کلاس لیکچر ہمیشہ نہایت مرتب اور معلومات افزا ہوتا تھا کہ طلبہ کی بہت سی مشکلات دور ہوجاتی تھیں۔ جس موضوع پر وہ خطاب کرتے اس میں کسی ابہام اور تشنگی کی گنجائش نہ رہتی اور انداز تخاطب اس قدر دلنشین ہوتا کہ طلبہ ان کے لیکچر کا ایک ایک لفظ نوٹ کرلیتے۔ طلبہ کے لئے وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ بلاشبہ وہ دھن کے پکے ایک بڑے آدمی تھے اور بڑے آدمی کسی بڑے مقصد کے بغیر زندگی یوں ہی نہیں گزار دیتے۔ سید عبداللہ اردو کو پاکستان میں اس کا اصل اور جائز مقام دلانے کا عہد کرچکے تھے چنانچہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کی ہر کوشش کو وقف کئے رکھا۔ 
ڈاکٹر سید عبداللہ ایک وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے۔ اردو شاعری میں میر، غالب اور اقبال ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی تین کتابیں نقدِ میر، اطرافِ غالب اور مقاماتِ اقبال اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ میر تقی میر سے ان کی عقیدت کی وجہ ان کی طبعی دردمندی تھے۔ ان کی طبیعت کا گداز اور سوز دروں اسی درد پسندی کی دین تھا۔ غالب کے ہاں فلسفہ زندگی اور انسانی نفسیات کا جو گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ سید صاحب اس کے قدردان تھے اور اقبال کی ملی شاعری ان کے ہاں وج
¿ہ مقبولیت تھی۔ 
ڈاکٹر سید عبداللہ اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اورینٹل کالج مشرقی زبانوں کا ادارہ ہے،سید صاحب کے زیر انتظام اس ادارے کو بہت فروغ حاصل ہوا اور پنجاب یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں اسے امتیازی حیثیت حاصل ہوئی۔ اردو کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دلانے اور ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے سید صاحب نے ایک تحریک کو منظم کیا اور تنہااس کے لئے ایک ادارے کی طرح کام کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں انہوں نے محبان اردو کو متحد و منظم کرکے ایک مضبوط قومی تحریک کی راہ ہموار کی۔ برصغیر پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں سید صاحب کو ایک بلند پایہ مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی کام کو اہلِ علم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مشرقی علوم اور السنہ کے حلقوں اور اداروں میں سید عبداللہ ایک معتبر و مسلم شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

اسلوب تحریر 
ڈاکٹر سید عبداللہ کے ہاں موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک اردو زبان تک اردو زبان و ادب کے سلسلے میں خدمات انجام دیں۔ اردو زبان کی لسانی و تاریخی حیثیت واہمیت پر انہوں نے تخلیقی و تنقیدی حوالے سے نہایت قابلِ قدر کام کیا۔ رومن اور عربی رسم الخط کے تقابلی مطالعے کے ذریعے اعلی تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ آپ کے اسلوبِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں

تنوع اور وسعت 
سید عبداللہ نے جہاں ٹھوس علمی و ادبی موضوعات پر قلم اٹھایا وہاں عصری مسائل بھی ان کی توجہ کا مرکز بنے۔ قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً اٹھنے والے تہذیبی، سماجی اور عمرانی مسائل پر بھی انہوں نے عالمانہ اظہار خیال کیا۔ ان کا اندازِ بیان ہر موضوع کے لئے موزوں ہے۔ 

سائنسی اندازِ تحریر 
ان کا طرزِ تحریر سائنٹیفک ہے۔ اس سلسلے میں وہ سرسید احمد خان کے پیرو نظر آتے ہیں۔ لیکن سرسید کے برعکس اسلوب کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے اسلوب تحریر میں سرسید اور شبلی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ 

سادگی و روانی 
سید عبداللہ کے نزدیک زبان خیال و فکر کے ابلاغ اور ادراک کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بات کو سادگی اور روانی کے ساتھ پیش کریں تاکہ قاری سہولت سے اسے سمجھ سکے۔ اس طرزِ تحریر کو سید صاحب مدعانگاری قرار دیتے ہیں۔ 
بے ساختگی و برجستگی 
سید صاحب نے اکثر علمی، فکری اور تنقیدی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اس کے لئے انشاپردازا نہ اسلوب نگارش کے بجائے بے ساختہ سادہ اور برجستہ بات کہنا زیادہ مناسب حال ہوتا ہے۔ چنانچہ سید صاحب کے ہاں اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ وہ لفظی شان و شکوہ دکھانے کے بجائے اصل توجہ اس بات پر دیتے ہیں کہ ان کی بات بہتر طور پر قاری کی سمجھ میں آسکے۔ 
قوتِ استدلال 
ڈاکٹر سید عبداللہ کے طرز تحریر میں منطق و استدلال کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات میں دلیل سے وزن پیدا کرتے ہیں اور منطقی ربط کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بات مربوط انداز میں صاف ستھرے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ 
ادبی چاشنی 
موضوع کتنا بھی علمی، فکری اور تحقیقی ہو سید صاحب اپنے طرز تحریر سے اسے دلچسپ اور پرلطف بنادیتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں خشکی اور بے لطفی نہیں بلکہ ان کے زبان و بیان میں ایک ادبی چاشنی کی گھلاوٹ موجود رہتی ہے۔ اس طرح قاری پوری دلچسپی دلچسپی کے ساتھ ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتا ہے۔ 
مقصدیت 
ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کو زندگی کا خادم سمجھتے ہیں۔ اس لئے محض عبارت آرائی اور نری انشا پردازی کبھی ان کا مقصد نہیں بنتی چنانچہ ان کا علمی و فکری اسلوب تحریر تنقیدی نگاری کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہے۔ جس طرح وہ ایک متوازن نقاد تسلیم کئے جاتے ہیں اسی طرح ان کا طرزِ تحریر بھی متوازن اور معتدل ہوتا ہے اور مقصدیت کی شان رکھتا ہے۔ 
اختصار و جامعیت 
اپنی تحریروں میں سید صاحب چھوٹے چھوٹے مگر بلیغ اور معنی خیز جملے استعمال کرتے ہیں، ان کے ہاں لفظوں کا استعمال باکفایت اور سادہ لیکن معانی سے پر ہوتا ہے۔ تھوڑے لفظوں میں بڑی بات کہنے کا انداز ان کے اسلوب تحریر کی خاص ادا ہے۔ 
ہلکا طنز 
سید صاحب کی تحریروں میں کبھی طنز کا عنصر بھی آجاتا ہے مگر اس کی چبھن نہایت دھیمی اور قدرے دلکش ہوتی ہے۔ یہ طنز وہ کبھی بے ضرر جملے اور کبھی مناسب حال شعر یا مصرعہ کے ذریعے لاتے ہیں۔ اپنے مضمون اردو ذریعہ تعلیم میں انہوں نے میر تقی میر کے ایک شعر سے یہ کام لیا ہے 
لگوائے پتھر اور برا بھی کہا کیے 
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے 

شگفتگی و رعنائی 
ڈاکٹر سید عبداللہ عربی، فارسی کے عالم تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں کو علمی نقاہت سے بوجھل نہیں ہونے نہیں دیا۔ بے شک ان کے ہاں ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی طرح ہندی الفاظ کے استعامل کی شعوری کوشش نہیں ملتی۔ لیکن زبان کے معاملے میں وہ لئے دیئے رہنے کی روایت کے قائل نہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض معروف انگریزی الفاظ استعمال کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔ وہ ایک بڑے ماہر تعلیم بھی تھے اور زبان دانی کے عظیم عالم بھی۔ زبان کے معاملے میں وہ کسی نارواتعصب کے روادار نہ تھے۔ وہ اردو زبان میں وسعت و تنوع پیدا کرنے کے قائل تھے۔ چنانچہ زبان و بیان کے معاملے انہیں آزاد روی زیادہ پسند تھے۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ حسن بیان فصاحت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر نے ان کی تحریروں کو ایک قسم کی شگفتگی و رعنائی بخشی ہے۔ 
لغت سازی 
کسی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دامن علمی و فکری اظہار کے لئے وسیع ہو۔ اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات کو اپنے اندر سمونے اور سمیٹنے کی گنجائش رکھتی ہو۔ محض شعرو ادب کے لئے محدود ہوجانے والی زبان کبھی زندہ زبان کا درجہ نہیں پاسکتی۔ زندہ اور پھلتے پھولتے رہنے والی زبان وہی ہو گی جو عام استعمال میں آئے گی۔ ان حقائق کے پیش نظر ڈاکٹر سید عبداللہ نے اردو کو دوسری زبانوں کی سیدھی سادھی آمیزش سے باثروت بنایا۔ نئے الفاظ اور اچھوتی تراکیب کے استعمال سے انہوں نے اردو کو علمی اظہار خیال کے لئے آسان تر بنانے کی کوشش کی۔ ان کے اس اندازِ بیان نے اردو نثر کو عام استعمال کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ وہ اردو پر محض ادبی اجارہ داری تسلیم نہیں کرتے تھے۔
 

  

LihatTutupKomentar