Seerat -e- Muhammadi - Urdu Tashreeh
Seerat -e- Muhammadi - Urdu Tashreeh
سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت
حوالہ
پیشِ نظر اقتباس ”سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی
جامعیت “ سے لیا گیا ہے جو ”سید سلیمان ندوی“ کی کتاب ”خطباتِ مدارس“ سے ماخوذ ہے۔
تعارفِ مصنف
علامہ سید سلیمان ندوی اس عہد کے عالم ہیں جو مسلمانوں
کی تارےخ کا سنہرہ دور تھا۔ ادب ہو یا تاریخ، سوانح نگاری ہو یا تحقیق، تمام شعبوں
میں آپ کو خاص مہارت حاصل ہے۔ سیرت نگاری میں آپ کے تخلیق کردہ گہرہائے آبدار آج
بھی آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں۔ آپ کے علمی منصب و مقام کا اندازہ آپ کے اُستاد کے
اس قول سے لگایا جاسکتا ہے :
ندوہ نے کیا کیا؟ کچھ نہیں کیا؟ صرف ایک سلیمان پیدا کیا
تو یہی کافی ہے۔ (علامہ شبلی نعمانی)
تعارفِ سبق
اس سبق میں جس موضوع کو بنیاد بنا کر پیش کیا گیا ہے وہ
یہ ہے کہ بنی نوعِ انساں کی ہدایت اور اخروی کامیابی کے لیے اللہ تعالی نے ایک
انسانِ کامل بھیجا جو مسلمانوں کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہر لحاظ سے کامل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذاتِ گرامی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں
سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کو لازم قرار
دیا گیا ہے۔
اقتباس ۱
خدا کی محبت کا اہل اور اس کے پیار کا مستحق بننے کے لئے
ہر مذہب نے ایک ہی تدبیر بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس مذہب کے شارع اور طریقے کے
بانی نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ لیکن اسلام نے اس سے بہتر
تدبیر اختیار کی ہے۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی مجسمہ سب کے
سامنے رکھ دیا ہے اور اس عملی مجسمے کی پیروی اور اتباع کو خدا کی محبت کے اہل اور
اس کے پیار کا مستحق بننے کا ذریعہ بنایا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول
ہے
اسی میں ہے اگر خامی تو نامکمل ہے
تشریح
مندرجہ بالا اقتباس میں مقرر سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے
ان کے سامنے تاریخ کے تمام مذاہب کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ اس دنیا میں اب
تک جتنے بھی مذہب آچکے ہیں انہوں نے کامیابی اور کامرانی کا ایک ہی حل بتایا اور
سرخروئی کے لئے ان ہدایات پر عمل کرنے کی نصیحت کی ہے جو پیغمبر دین لے کر آئے۔ اس
طرح ہر مذہب کے ماننے والے اس بات کے لئے کوششیں کرتے ہیں کہ جو ان کے پیغمبر نے
احکام پہنچائے ہیں ان پر عمل کیا جائے اور سرخرو ہوا جائے۔ مقرر پھر دینِ اسلام کا
مخصوص طریقے کی طرف نشان دہی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان تمام مذاہب کے برعکس چونکہ
اسلام ایک مکمل دین ہے اس لئے اس نے اس کا آسان ترین حل پیش کیا ہے۔ اسلام نے اپنے
تمام احکامات و ہدایات کو ایک شخص کی عملی زندگی کی صورت میں پیش کیا۔ وہ شخص
مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی زندگی کے ہر لمحے کو
دین حق کا پیروکار بنایا اور یہ ثابت کردیا کہ یہ دین انسانون ہی کے لئے اور انسان
اس پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ پھر اسلام نے تمام مسلمانوں
پر یہ فرض کردیا کہ رضا الہی اور خالق حقیقی کی خوشنودی کے لئے یہ ضروری ہے کہ
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کیا جائے جو اسلام ۔کا عملی
نمونہ ہے
اقتباس ۲
چنانچہ اسلام میں دو چیزیں ہیں، کتاب اور سنت۔ کتاب سے
مقصود خدا کے احکام ہیں جو قرآن مجیدکے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں اور سنت جس کے لغوی
معنی راستے کے ہیں وہ راستہ ہے جس پر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے
احکام پر عمل کرتے ہوئے گزرے ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ جس کی
تصویر احادیث میں بصورت الفاظ ہے۔
تشریح
پیشِ نظر اقتباس میں مقرر سامعین کے سامنے اسلام کا
بنیادی ڈھانچہ پیش کررہا ہے تاکہ ان کے ذہنوں میں اس دین الہی کے صحیح خدوخال واضح
ہوجائیں۔ وہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام کا سرچشمہ دو بنیادوں سے مل کر بنتا ہے اور اس
دین کو ماننے والے انہی دو سرچشموں کے تحت عمل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہدایت حاصل
کرنے کے ذرائع بھی یہی دو بنیادیں ہیں۔ پھر وہ پہلے سرچشمہ کی نشاندہی کرتے ہوئے
کہتا ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی کے احکامات ہم تک پہنچتے ہیں اور اس کتاب کے
ذریعے بندے کا اپنے خدا سے تعلق جڑا رہتا ہے۔ اس ہمیشہ رہنے والی کتاب میں ہر قوم
اور ہر عہد کے لئے ہدایت موجود ہیں جس پر مسلمانوں کے لئے عمل کرنا لازم ہے۔ اسی
طرح اسلام کا دوسرا سرچشمئہ ہدایت سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ یعنی وہ عملی
راستہ جو قرآن مجید کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا گیا۔ تمام احکاماتِ الہی کا عملی
نمونہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ملے گا اور یہ سنت ہمارے پاس
مختلف کتب کی صورت میں موجود ہے جو عہدِ رسالت کے اشخاص نے اپنی امت کے لئے محفوظ
کرلی ہے۔ اس طرح ان اشخاص نے اپنی ملت کے لئے محفوظ کرلی ہے۔ اس طرح ان دونوں
باتوں پر عمل کرنے سے ہی ہم اسلام کے صحیح پیروکار بن سکتے ہیں اور یہی نجات کا
واحد ذریعہ ہے
اقتباس ۳
اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفّہ کی درسگاہ کے معلم قدس
کو دیکھو۔ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماﺅ۔ اگر واعظ اور ناصح ہو تو
مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو۔ اگر تم حق کی نصرت کے بعد
اپنے دشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو، تو فاتحِ مکہ کا نظارہ کرو۔
تشریح
سید سلیمان ندوی نے اپنے اس خطبے کے اقتباس سیرت محمدی
صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی
افادیت کے ہر رخ کو نہایت مدلل اور واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ اسکی وضاحت کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہر طبقے ہر سطح کے لئے یہ سیرت پرکشش، قابلِ عمل اور
باعثِ نجات ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجموع کمال اور
دولتِ لازوال بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا کامل نمونہ
دنیا کے سامنے رکھا تاکہ دنیا کا ہر شخص تعلیم و ہدایت اور منزلِ مقصود پالے۔
آپ کی سیرت میں صرف ایک استاد ہی کے لئے رہنمائی کی دولت
نہیں۔ ایک شاگرد بھی حصولِ علم کے صحیح انداز اور استاد کی سچی عظمت و خدمت کے
انداز سیکھ سکتا ہے۔ اسکی مثال مسجد کا وہ چبوترہ ہے جو صفہ کہلاتا ہے۔ جس پر
ہمارے نبی اپنے احساسِ عظمت کے ساتھ اشاعتِ علم میں مصروف رہتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا سا شفیق استاد قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔ واعظوں کو بھی آپ کی سیرت بے
مثال سے نمونہ مل سکتا ہے۔ دوسروں کو نصیحت کرنے اور ہدایت کرنے کے لئے کون سا
طریقہ کار استعمال کرنا چاہئے۔ وہی طریقہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم میں اختیار فرماتے تھے۔ آپ دشمنوں پر قابو پاکر اسی طرح خطائیں بخشیں
جیسے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر کہا کہ سب کے لئے
امن و سلامتی کا حکم صادر کیا اور کہا آج کوئی مواخذہ نہیں۔ سب سے پہلے اپنے
خاندان کا خون معاف کیا۔ بدترین دشمنوں، خون کے پیاسوں کو بخش دیا۔ یہی وہ اچھے
اعمال ہیں جو ہمیں اچھا انسان بناکر کامیاب گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ اس زندگی
سے انسان دین و دنیا دونوں میں سرخروئی اور سربلندی حاصل کرتا ہے