Mulana Altaf hussain Hali
Mulana Altaf hussain Hali
مولانا الطاف حسین حالی
تعارف
بقول حالی
اے شعرِ دل فریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پر حیف ہے جونہ ہو دل گداز تو
خواجہ الطاف حسین اردو ادب و سخن میں ایک ایسا نام ہے جس
کے احسانات کی بدولت جدید اردو عالمی معیار کے سفر پر گامزن ہوگئی۔ وہ ایک ایسا
شخص تھا جس نے ادب و سخن دونوں میں بھرپور خامہ فرسائی کی اور اہلِ دنیا سے داد و
تحسین وصول کی۔ اسی کی کاوشوں کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں علم و عمل کے چراغ
روشن ہوئے اور بصیرتوں کو زندگی کا سراغ ملا۔ اردو علم و ادب کا ہر شعبہ اس کا
ممنوع احسان ہے۔ شاعری ہو یا نثر، تنقید ہو یا تحقیق ہر پہلو میں حالی ہی کو معیار
سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے بارے میں ارشاد ہے:
حالی کا اندازِ تحریر سادہ و سلیس ہے۔ وہ زبان سے زیادہ
مطلب پر توجہ دیتی ہیں اور آرائش ِ زبان کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ ان کی تحریر میں
تکلف نہیں بلکہ خلوص اور سچائی ہے۔ (ڈاکٹر وحید
قریشی )
طرزِ نگارش
الطاف حسین حالی کی نثرنگاری کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
مقصدیت
حالی نے ہمیشہ مقصدیت کو اولین ترجیح دی اور اپنی
تحریروں سے اصلاح معاشرہ کی کاوشیں کیں۔ آپ نے ادب و سخن کو زندگی کا حقیقی ترجمان
بنا ڈالا کیونکہ آپ کے نظریہ کے مطابق ایسا ادب بے ادبی ہے جو ترجمان ِ حیات نہ
ہو۔ مثال کے طور پر وہ رقم طراز ہیں:
میں نے جو کچھ لکھا اس کا منشاءوہ ضرورت وہ مصلحت ہے جس
کے سبب سے بھولے کو راہ بتائی جاتی ہے اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ (مقالات حالی)
سادگی و سلاست
حالی کی تحریریں سادہ اور سلیس جملوں پر مشتمل ہوتی ہیں
جب میں مدعا انتہائی شستہ پیراوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ حوالہ جاتی مضامین ہوں،
سوانح نگاری ہو یا تنقید کا سخت میزان ان کی بات سیدھا اور واضح مفہوم رکھتی ہے۔
تنقید نگاری
اردو دنیائے ادب میں باضابطہ تنقید نگاری کا آغاز حالی
کی آمد سے ہوا۔ آپ نے اپنی بیشتر تحریروں میں تنقید کا سہارا لیا۔ آپ نے کبھی
حقیقیت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور تحریر اور کردار کو داغدار ہونے سے ہمیشہ
بچایا۔ آپ نے ایک جگہ تحریر کیا:
سرسید کی طبیعت ڈسپاٹک تھی، یعنی آمرانہ۔
ایک اور جگہ آپ سرسید کے بارے میں فرماتے ہیں:
قرآن کی تفسیر لکھنے میں سرسید سے جابجا غلطیاں ہوئی ہیں
اور انہوں نے جابجا ٹھوکریں کھائیں ہیں۔
آپ کی وہ کتاب جس میں آپ نے اپنی تنقیدی صلاحیتیوں کا
بھرپور اظہار کیا ”میزان ِ شعر و سخن“ کے نام سے مشہور ہے۔
سوانح نگاری
خواجہ الطاف حسین حالی جدید سوانح نگاری کے موجد ہیں۔
موجد ہونے کے باوجود آپ نے اس صنفِ ادب کی معراج کو چھویا اور بہترین نمونہ�¿ تحاریر پیش کئے۔ آپ کے چند
مشہور سوانح درج ذیل شخصیتوں پر مبنی ہیں:
- شیخ
سعدی حیات سعدی
- مرزا
غالب یادگارِ غالب
- سرسید
احمد خان
حسنِ تخیل
خواجہ الطاف حسین حالی کے نثر پاروں میں تخیل کی
کارفرمائی موجود ہے جو ان تحریروں میں شاعرانہ دل کشی کا واحد سبب ہے۔ یہ تخیل ان
کے جذبات کا آئینہ دار ہے۔ مثال کے طور پروہ رقم طراز ہیں:
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت اس کی باڑھ میں نہیں بلکہ
سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہے، اس طرح کلام کی تاثیر اس کے الفاظ میں نہیں بلکہ متکلم
کی سچائی، اس کے نڈر دل اور بے لاگ زبان میں ہے۔ (حیاتِ جاوید)
تنوع مضامین
حالی وہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے اردو میں ادبی، سائنسی،
تنقیدی و شاعرانہ مباحثے بہت کامیابی سے پیش کیے۔ ان کی تحریروں میں حیرت انگیز
تنوع پایا جاتا ہے اور ہر موضوع کا رنگ ملتا ہے۔ آپ کے بارے لکھا گیا:
عملی نظریات اور اظہارِ حقائق کے لئے حالی کے نثر سے
بہتر پیرائیہ بیان اردو میں نہیں ہے۔ (ڈاکٹر سید
عبداللہ)
انگریزی الفاظ کا استعمال
سرسید احمد خان کی طرح حالی کی تحریروں میں بھی جابجا
انگریزی الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ آپ مقصدیت پر زور دیتے ہوئے بعض اوقات شعوری
طور پر بھی یہ الفاظ استعمال کرجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ لکھتے ہیں:
مگر ایک مورلسٹ شاعر ان سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے۔
جس کے لٹریچر کی عمر پچاس برس سے زائد نہیں۔
جس کی گرامر آج تک اطمینان کے قابل نہیں بنی۔
آراہ ناقدین
مختلف تنقید نگار حالی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور
اپنے اپنی انداز میں لکھتے ہیں:
حالی کے یہاں سرسید سے بھی زیادہ جچا تلا اندازِ فطرت
پرستی نظر آتا ہے۔ ( پروفیسر آل
احمد سرور)
حالی کا اسلوب ِ تحریر بہت صاف اور سادہ ہے اور جس صفائی
اور سادگی کو وہ شاعری اور شاعروں کے لئے ضروری سمجھتے ہیں، اسے نثر نگاری کے لئے
بھی لازمی جانتے ہیں۔ (ڈاکٹر
ابولیث صدیقی)
حالی نے اپنے قدم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس میں اچھے کو بر ے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ (پروفیسر احتشام حسین)