Moulana Muhammad Hussain Azad
Moulana Muhammad Hussain Azad
مولانا محمد حسین آزاد
حالاتِ زندگی
آزاد ۲۳۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوئے۔
والد کا نام محمد باقر تھا جن کے استاد ذوق سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ آزاد نے ان
کی ہی زیرِ نگرانی تربیت پائی۔ ان کے والد محمد باقر نے دہلی میں اردو کا سب سے
پہلا اخبار نکالا تو تعلیم و تربیت اور ذوق کی شاگردی نے آزاد کو اور پختہ کردیا۔
ادبی و علمی خدمات اور طرز تحریر
اردو نثرنگار میں آزاد ایک بلند اور منفرد حیثیت رکھتے
ہیں۔ وہ ایک صاحب طرز انشاءپرداز ہیں ان کی تحیری میں بھاشا کی سادگی، بے تکلفی
انگریزی کی صاف گوئی فارسی کی شیرینی، حسن اور خوبصورتی پائی جاتی ہے ان کی نثر
میں موسیقیت پائی جاتی ہے ۔وہ الفاظ اور محاورہ کے استعمال میں توازن اور تناسب کا
خیال رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں تصنع اور تکلف سے پاک ہیں۔ ان کی طبیعت میں ندرت و
دنت طرازی ہے۔ لطیف تشبیہیں اور استعارے ان کی تحریر کے حسن کو دو بالا کردیتے
ہیں۔ آزاد کے طرزِ نگارش کی ایک اہم خصوصیت ہے کہ ان کی تحریر پہلو دار ہوتی ہے ۔
وہ تنقید کرتے وقت بھی کھل کر میدان میں نہیں آتے بلکہ
پہلو سے وار کرتے ہیں۔ اور پڑھنے والا ان کی انشاء کی رنگینی میں ایسا کھو جاتا ہے
کہ اس کو احساس نہیں رہتا کہ انہوں نے کہاں چٹکی لی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر یہ
بھی احساس ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی فضا احساسات اور تاثرات سے بھری ہوئی ہے۔ زبان و
بیان کی شیرینی میں ان کا کوئی مدمقابل نہیں ہوسکا۔
بحیثیت تذکرہ نگار
آب حیات میں آزاد نے شعر کی زندگی اور ان کی شاعری پر
روشنی ڈالی وہ تذکرہ سے زیادہ تاریخ ہے۔ آب حیات اردو زبان اور شاعری کا اہم ماخذ
ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے پہلی بار زبان کے مزاج اور
اس کی قدیم تاریخ کا سراغ لگانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
نیرنگِ خیال
اردو میں تمثیل نگاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔ اس کے
جو نمونے ملتے ہیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- قصہ
گل بکاولی
- سب
رس
- گلزار
ابراہیم
- جہادِ
اکبر
یہ تمام فارسی تمثیلات سے مشابہ اور مماثلت رکھتی
ہیں۔ موضوعات کے اعتبار سے بھی ان میں کوئی فرق نہیں ہے سب ہی میں تصوف، وحدت
الوجود تر کو دنیا اور متعلقات تصوف کو تمثیلاً بیان کیا گیا ہے۔ آزاد نیرنگ خیال
اردو کی پہلی تمثیل ہے جس کا موضوع تصوف نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر مباحث اور مسائل
کو حسین اور دلکش انداز پیش کیا گیا ہے۔
بحیثیت مورخ
دربارِ اکبر عہد اکبری کی تاریخ ہے۔ جس میں بادشاہ کی
ذاتی، درباری آئینی اور ملکی حالات، سلطنت کے خاص امراء و عمائدین اور علماءوغیرہ
کے حالات بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ آزاد نے اکبر کے دین الہی اور علماءکی توہین
کو بہت سراہا ہے اس کے علاوہ ان کی زبان کی رنگینی اور تخئیل کی پرواز نے دربارِ
اکبر کو تاریخ سے زیادہ افسانہ بنادیا ہے۔
سخندان فارس
آزاد کی اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے میں فارسی زبان کی
اصل ساخت کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں ایران کی آب و ہوا اور وہاں کی تہذیب
و تمدن، شاعروں اور مصنفوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اردو میں اس موضوع پر
کوئی کتاب موجود نہ تھی لیکن اس میں بھی آزاد کی رنگینی تحریر موجود ہے۔
انگریزی الفاظ
آزاد نے جہاں اپنی تحریروں میں عربی، فارسی اور ہندی کے
الفاظ بیان کئے ہیں وہاں انگریزی سے بھی بے تکلف فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن
وہ بلا ضرورت نہ انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں نہ عربی کہ جس کو پڑھتے وقت، کیف
سرور محسوس ہوتا ہے۔
آراہ ناقدین
آزاد کی بعض خامیوں کے باوجود ان کی عظمت کو سب نے تسلیم
کیا ہے۔ ان کی موت پر کہا گیا
تاریخِ وفات اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہ دو کہ ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا (حالی)
شبلی نعمانی نے آزاد کو اردوئے معلی کا ہیرو کہا ہے اور
آزاد کے انتقال پر شبلی نے ان کو خدائے اردو کہہ کر یادکیا:
وہ تحقیقی کا مردِ میدان نہیں تاہم ادھر ادھر کی گپیں
ہانک دیتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہیں۔ (شبلی نعمانی)
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو کچھ نہیں رہتے، نذیر
احمد بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑ سکتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے
رہ جائیں گے، حالی بھی جہاں تک نثر نگاری کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے
ہیں۔ لیکن آقائے اردو یعنی پروفیسر آزاد ایسے انشاء پرداز ہیں جن کو کسی اور سہارے
کی ضرورت نہیں۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ)
الفاظ کا انتخاب اور زبان کی شیرینی اور جابجا تشبییہ
اور استعارے کی گل کاری عبارت میں حسن پیدا کردیتی ہے کہ پڑھتے چلے جائیے طبیعت
سیر نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ وہ اردو کہ بڑے انشاءپرداز اور ادیب شمار کئے جاتے
ہیں۔ (ڈاکٹر اعجاز حسین)